غزہ میں اسرائیل کی فاقہ کشی کی پالیسی ناقابلِ قبول ہوگی؛ سلامتی کونسل میں امریکی سفیر کا بیان
امریکہ اسرائیل کی جانب سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اس کی زمینی کارروائیوں سے یہ ظاہر ہو کہ وہ شمالی غزہ میں" فاقہ کشی کی پالیسی"پر عمل نہیں کر رہا۔ یہ بات اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے بدھ کو سلامتی کونسل کو بتائی۔
لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے 15 رکنی کونسل کو بتایا کہ ایسی پالیسی "خوفناک اور ناقابل قبول ہوگی اور اس کے بین الاقوامی قانون اور امریکی قانون کے تحت مضمرات ہوں گے۔"
تھامس گرین فیلڈ نے امریکہ کے دیرینہ اتحادی کی جانب امریکی موقف میں شدت پر زور دیتے ہوئے کہا ،"اسرائیل کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ ان کی پالیسی نہیں ہے، خوراک اور دیگر دوسری ضروری رسد کو منقطع نہیں کیا جائے گا ، اور ہم اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کے زمینی اقدامات اس بیان سے ہم آہنگ ہوں ۔"
’ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کے امکانات بہت کم ہیں‘
یہ دعوی کرتے ہوئے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملہ کامیاب نہیں ہوگا یا اس سے کوئی خاص نقصان ہوگا ایران کی ایٹمی ایجنسی نے پیش گوئی کی ہے ملک پر اسرائیل کی جانب سے ایسے حملے کے امکانات بہت کم ہیں۔
ایرانی ایٹمی ایجنسی کے ترجمان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب ایران کے اسرائیل پر تقریباً دوسو میزائل حملوں کے جواب میں خطہ میں توقع کی جاری ہے کہ اسرائیل اس پر ردعمل کا اظہارکرے گا۔
واضح رہے کہ یکم اکتوبر کو اسرائیل پر کیا جانے والا ایرانی میزائل حملہ اس سال ہونے والی ایسی دوسری کارروائی تھی جو تہران نے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ اور پاسداران انقلاب کے جنرل عباس نیلفور شان کی ستمبر کی 27 ہلاکت کے بعد کیا۔
اس سے قبل فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی 31 جولائی کو تہران میں ہلاکت کا الزام بھی اسرائیل پر لگایا گیا تھا۔
یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل کا سربراہی اجلاس؛ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ
مشرق وسطیٰ میں پھیلی افرا تفری کے درمیان یورپی یونین اور چھ خلیجی ممالک کے رہنماؤں نے بدھ کے روز ایک سربراہی اجلاس کے لیے ملاقات کی جس میں یوکرین کی جنگ اور روس کے ساتھ تعلقات پر متفقہ مؤقف تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔
روس کا تذکرہ صرف اقوامِ متحدہ کی ایک قرارداد کے حوالے سے کیا گیا جس میں روسی جارحیت پر تنقید کی گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ یوکرین سے اپنی فوجیں نکا لے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے تنازع میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر یورپی یونین کے ممالک بار بار روس کا نام لیتے ہیں، لیکن غزہ میں اسرائیل کی جنگ میں انہی معیارات کو لاگو کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے کہا کہ قریبی تعلقات کا مطلب بین الاقوامی انصاف سے زیادہ سے زیادہ وابستگی اور دوہرے معیار کی پالیسیوں سے دوری ہونا چاہیے۔
2006 کی جنگ میں فتح کی دعوے دار حزب اللہ کیا اب اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ کے ایک سال بعد مشرقِ وسطیٰ میں تنازع پھیلنے کے اندیشے ایک بھیانک حقیقت کا روپ دھارتے نظر آ رہے ہیں جس میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں میں لبنان کی تباہی اور ایران کے ساتھ کسی براہِ راست جنگ کے خطرات کو امن کے خلاف بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔
عرب ممالک اور امریکہ جنگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوششوں پر زور دے رہے ہیں جب کہ اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں شدت آ رہی ہے۔
اسرائیل نے لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد ملک کے دارالحکومت بیروت سمیت کئی دیگر علاقوں میں اس کے اہم رہنماؤں اور ٹھکانوں کو زمینی اور فضائی حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق ان حملوں اور لڑائی کے بعد لبنان میں شہریوں کی ہلاکتوں، انفرا اسٹرکچر کے نقصان، متاثرہ لوگوں کے بے گھر ہونے اور نقل مکانی سے بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف مہم ملک کے دفاع کے حق کے مطابق ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق کے سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد سرحد پار سے حزب اللہ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کے شمالی علاقوں سے منتقل ہونے والے 60 ہزار لوگوں کی ان کے گھروں میں واپسی اس کی ذمہ داری ہے۔
حزب اللہ 2006 کی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فتح یاب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ قیادت کی موت کے بعد کیا حزب اللہ نئے رہنماؤں کے ساتھ اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اس پر بعض مبصرین کی رائے ہے کہ ابھی تک تو تنظیم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کیوں کہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہےاور اپنے وطن کے دفاع کرنے کا جذبہ بھی ہے۔