2006 کی جنگ میں فتح کی دعوے دار حزب اللہ کیا اب اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ کے ایک سال بعد مشرقِ وسطیٰ میں تنازع پھیلنے کے اندیشے ایک بھیانک حقیقت کا روپ دھارتے نظر آ رہے ہیں جس میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں میں لبنان کی تباہی اور ایران کے ساتھ کسی براہِ راست جنگ کے خطرات کو امن کے خلاف بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔
عرب ممالک اور امریکہ جنگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوششوں پر زور دے رہے ہیں جب کہ اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں شدت آ رہی ہے۔
اسرائیل نے لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد ملک کے دارالحکومت بیروت سمیت کئی دیگر علاقوں میں اس کے اہم رہنماؤں اور ٹھکانوں کو زمینی اور فضائی حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق ان حملوں اور لڑائی کے بعد لبنان میں شہریوں کی ہلاکتوں، انفرا اسٹرکچر کے نقصان، متاثرہ لوگوں کے بے گھر ہونے اور نقل مکانی سے بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف مہم ملک کے دفاع کے حق کے مطابق ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق کے سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد سرحد پار سے حزب اللہ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کے شمالی علاقوں سے منتقل ہونے والے 60 ہزار لوگوں کی ان کے گھروں میں واپسی اس کی ذمہ داری ہے۔
حزب اللہ 2006 کی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فتح یاب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ قیادت کی موت کے بعد کیا حزب اللہ نئے رہنماؤں کے ساتھ اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اس پر بعض مبصرین کی رائے ہے کہ ابھی تک تو تنظیم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کیوں کہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہےاور اپنے وطن کے دفاع کرنے کا جذبہ بھی ہے۔