رسائی کے لنکس

پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ سیریز کرانے پر غور


پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ سیریز کی میزبانی کے لیے آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ کلب نے غور شروع کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2007 کے بعد سے اب تک کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں کھیلی گئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آخری مرتبہ 2013 میں تین ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز میں آمنے سامنے آئی تھیں۔ اس کے علاوہ دونوں ٹیموں کے درمیان آئی سی سی یا ایشیا کپ کے مقابلوں میں ہی میچز دیکھنے کو ملتے ہیں۔

رواں برس اکتوبر میں میلبرن کرکٹ اسٹیڈیم میں دونوں ٹیموں کے درمیان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا ایک شاندار میچ کھیلا گیا تھا جس میں 90 ہزار سے زائد تماشائیوں نے گراؤنڈ میں بیٹھ کر میچ دیکھا تھا۔

میلبرن کرکٹ کلب (ایم سی جی) پرامید ہے کہ اگر دونوں ٹیمیں اسی گراؤنڈ میں ٹیسٹ سیریز میں بھی مدِ مقابل ہوں تو اسی طرح تماشائیوں کی بڑی تعداد میچ دیکھے گی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایم سی جی کے چیف ایگزیکٹو اسٹارٹ فوکس کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ سیریز ہو تو تماشائیوں سے گراؤنڈ کو بھرنا کوئی مشکل بات نہیں ہو گی۔

فوکس نے مقامی ریڈیو 'ایس ای این' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم سی جی میں دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے میچ کا ماحول انہوں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا جہاں ہر ایک گیند پر ہونے والا شور بہت ہی شاندار تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایم سی جی میں تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز بہت شاندارہو گی اور ہر میچ میں آپ گراؤنڈ کو بھر سکتے ہیں۔

فوکس کے مطابق انہوں نے پاک بھارت ٹیسٹ سیریز کی میزبانی کا معاملہ کرکٹ آسٹریلیا کے سامنے اٹھایا ہے اور یقیناً وکٹوریہ حکومت نے بھی یہ معاملہ ضرور اٹھایا ہو گا۔ امید ہے کہ کرکٹ آسٹریلیا اس سیریز کی تجویز کو عالمی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے سامنے رکھے گا۔

تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی سیریز کا فیصلہ دونوں کرکٹ بورڈ یا آئی سی سی ہی کر سکتے ہیں۔

فوکس کے بقول "ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاک بھات سیریز ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور ایسے وقت میں جب ٹیموں کا شیڈول بھی بہت مصروف ہے لیکن میرے خیال میں یہ سیریز کرانا ایک بڑا چیلنج ضرور ہے۔"

فوکس نے کہا کہ آپ ٹیسٹ کرکٹ میں خالی گراؤنڈز کو دیکھتے ہیں اس سے بہتر ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے جہاں تماشائیوں کی بڑی تعداد گراؤنڈ میں بیٹھ کر کھیل سے لطف اندوز ہو سکے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG