موسیٰ خیل میں شناخت کے بعد مسافروں کا قتل، متعدد گاڑیاں نذرِ آتش
’دہشت گرد اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے‘
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہ رند نے کہا ہے کہ دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے ہیں۔ دو مقامات پر سیکیورٹی اداروں نے حملوں کو ناکام بھی بنایا ہے۔
نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے گفتگو میں شاہد رند نے کہا کہ موسیٰ خیل میں مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناخت کیا گیا۔
ان کے بقول ایسے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ تنظیم کوئی بھی ہو اگر موسیٰ خیل جیسی کارروائیاں کرتی ہے تو وہ دہشت گرد ہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز سمیت سب کو مل کر کوشش کرنی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل کا علاقہ ڈی جی خان سے منسلک ہے۔ ایسے پہاڑی علاقوں میں شاہراہیں قومی شاہراہیں نہیں ہوتیں تو یہاں سیکیورٹی کم ہوتی ہے۔ عسکریت پسندوں کا موسیٰ خیل میں حملہ سیکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے کہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارروائی کی گئی۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی موسیٰ خیل واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی قبول نہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں موسی خیل میں 23 افراد کے قتل کے واقعے کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔
موسیٰ خیل میں متعدد گاڑیاں نذر آتش
شدت پسندوں نے شناخت کے بعد پہلے تشدد کیا اور پھر قتل کیا: پولیس حکام
بلوچستان کے پنجاب سے متصل علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے اُتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔ یہ شاہراہ بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔
مقامی افراد نے اطلاع دی ہے کہ اس مقام پر مسلح افراد نے دو درجن سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے۔
موسیٰ خیل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس دوران مسلح افراد نے پنجاب سے بلوچستان آنے والی گاڑیوں سے شہریوں کو اُتار کر شناخت کے بعد قتل کیا۔
ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ایوب اچکزئی نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔
ایس پی موسیٰ خیل ایوب اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاشوں اور زخمی افراد کو مقامی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔
ایوب اچکزئی کے بقول مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو مسافر بسوں سے اتارا جب کہ باقی 17 کو کوئلے کی ٹرکوں سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
موسیٰ خیل میں جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں مسلح افراد نے 16 سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔
اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ ویڈیوز بھی زیرِ گردش ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئلے سے لدے ٹرکوں سمیت دیگر گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔