رسائی کے لنکس

بھارت میں پانچویں مرحلےکی پولنگ؛ راہل گاندھی، اسمرتی ایرانی، راج ناتھ میدان میں


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • پانچویں مرحلے میں اترپردیش میں 14، مہاراشٹر میں 13، مغربی بنگال میں سات، بہار اور اڑیسہ میں پانچ پانچ جھارکھنڈ میں تین اور جموں و کشمیر میں ایک حلقے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔
  • قابلِ ذکر امیدواروں میں کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی، مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے عمر عبد اللہ شامل ہیں۔
  • حکمراں اور اپوزیشن کے اتحادوں ’این ڈی اے‘ اور ’انڈیا‘ کے رہنماؤں کی جانب سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

نئی دہلی — بھارت کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے انتخابات میں پانچویں مرحلے میں 20 مئی کو 9 ریاستوں کے 49 حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس مرحلے میں بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال اور مہاراشٹر میں کئی اہم حلقے شامل ہیں جن میں رائے بریلی، امیٹھی اور بارہمولہ بھی شامل ہیں۔

ریاست اتر پردیش کے فیض آباد حلقے میں بھی پولنگ ہو گی جہاں ایودھیا شہر واقع ہے اور جو حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔

حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے 2019 میں ان میں سے 32 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار وہ ان میں سے 40 پر اور کانگریس 18 پر الیکشن لڑ رہی ہے اورباقی نشستیں حلیف پارٹیوں کے لیے چھوڑ دی ہیں۔

پانچویں مرحلے میں اترپردیش میں 14، مہاراشٹر میں 13، مغربی بنگال میں سات، بہار اور اڑیسہ میں پانچ پانچ جھارکھنڈ میں تین اور جموں و کشمیر میں ایک حلقے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔

تاحال 379 حلقوں میں ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ پہلے اور دوسرے مرحلے میں 19 اور 26 اپریل کو جب کہ تیسرے اور چوتھے مرحلے میں سات اور 13 مئی کو پولنگ ہوئی تھی۔

چھٹے مرحلے میں 25 مئی کو اور ساتویں اور آخری مرحلے میں یکم جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

چار جون کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہوگا۔

پانچویں مرحلے کے قابلِ ذکر امیدواروں میں اترپردیش کے رائے بریلی سے کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی، امیٹھی سے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے حلقے بارہمولہ سے نیشنل کانفرنس کے عمر عبد اللہ شامل ہیں۔ راہل گاندھی کیرالہ کے وایناڈ سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہاں 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔

رائے بریلی کانگریس کی سینئر رہنما سونیا گاندھی اور امیٹھی راہل گاندھی کے حلقے رہے ہیں۔ سونیا نے خرابیٴ صحت کی وجہ سے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ وہ راجستھان سے راجیہ سبھا رکن منتخب ہو چکی ہیں۔ راہل گاندھی کو 2019 میں بی جے پی کی اسمرتی ایرانی نے شکست دی تھی۔

رائے بریلی سے راہل گاندھی کی جیت کے قوی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ہفتے کو انتخابی مہم کے خاتمے سے قبل سونیا گاندھی نے وہاں ایک عوامی جلسے سے خطاب کیا اور رائے بریلی کے عوام سے کہا کہ وہ اپنا بیٹا انہیں سونپ رہی ہیں۔

اس بار امیٹھی سے بی جے پی نے پھر اسمرتی ایرانی کو میدان میں اتارا ہے جب کہ کانگریس کی جانب سے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے ایک قریبی معاون کے ایل شرما کو میدان میں اتارا گیا ہے۔

امیٹھی میں بی جے پی اور کانگریس دونوں نے پوری بھر پور مہم چلائی ہے۔ پرینکا گاندھی نے امیٹھی کی انتخابی مہم کی کمان سنبھال رکھی تھی۔ دونوں پارٹیوں نے اپنی اپنی جیت کے دعوے کیے ہیں۔

لکھنؤ سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپٹی کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔ وہاں سے موجودہ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ لڑ رہے ہیں۔ اس بار ان کا مقابلہ سماجوادی پارٹی (ایس پی) کے روی داس مہروترا اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے سرور ملک سے ہے۔

پانچویں مرحلے میں اترپردیش کے قیصر گنج میں بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہ حلقہ بی جے پی کے طاقت ور سیاست داں اور ’کشتی فیڈریشن‘ کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کا ہوا کرتا تھا۔ لیکن خاتون پہلوانوں کی جانب سے ان پر جنسی استحصال کے الزام اور ان کے خلاف مہینوں تک چلنے والے دھرنے کی وجہ سے اس بار بی جے پی نے ان کے بیٹے کرن بھوشن سنگھ کو ٹکٹ دیا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے بارہمولہ حلقے سے نیشنل کانفرنس کے عمر عبد اللہ میدان میں ہیں۔ ان کے مقابلے میں پیپلز کانفرنس کے سجاد لون ہیں۔

مہاراشٹر کے نارتھ ممبئی حلقے سے مرکزی وزیر اور بی جے پی امیدوار پیوش گوئل میدان میں ہیں۔ ان کے مقابلے میں کانگریس کے بھوشن پاٹل ہیں۔

دیگر اہم امیدواروں میں حاجی پور بہار سے لوک جن شکستی پارٹی کے چراغ پاسوان اور سارن بہار سے بی جے پی کے راجیو پرتاپ روڈی اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) سے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی بیٹی روہنی آچاریہ قابل ذکر ہیں۔

گزشتہ چار مرحلوں میں ووٹنگ کی شرح مجموعی طور پر 60 سے 69 فی صد رہی جو کہ 2019 کے مقابلے میں کم ہے۔

حکمراں اور اپوزیشن کے اتحادوں ’این ڈی اے‘ اور ’انڈیا‘ کے رہنماؤں کی جانب سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 14 مئی کو اترپردیش کے وارانسی سے کاغذات نامزدگی جمع کیے۔

اس موقع پر انہوں نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان پر ہندو مسلمان کرنے کا الزام لگتا ہے۔ لیکن وہ ہندو مسلمان نہیں کرتے جس دن انھوں نے ایسا کیا اس دن وہ سیاست کرنے کے اہل نہیں رہیں گے۔

لیکن اگلے ہی روز انھوں نے مہاراشٹر کی ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ یو پی اے حکومت چاہتی تھی کہ وہ بجٹ کا 15 فی صد مسلمانوں کے لیے مختص کر دے۔

قبل ازیں انہوں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر مرکز میں کانگریس کی حکومت آگئی تو وہ رام مندر پر بابری تالا لگا دے گی۔ اس کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ انہوں نے ایسا بیان نہیں دیا ہے۔

انہوں نے جمعے کو اترپردیش میں ایک انتخابی جلسے میں الزام لگایا کہ اگر کانگریس اور سماجوادی پارٹی اقتدار میں آگئیں تو رام مندر پر بلڈوزر چل جائے گا۔

کانگریس نے ان کے اس الزام کی شکایت الیکشن کمیشن آف انڈیا میں کی ہے۔ تاہم کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔

جب کہ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے سمیت متعدد اپوزیشن رہنماؤں کا الزام ہے کہ وزیرِ اعظم دروغ بیانی سے کام لیتے ہیں۔

کھڑگے نے اعلان کیا کہ کانگریس کی حکومت غریبوں میں پانچ کلو کے بجائے 10 کلو راشن مفت دے گی۔

یاد رہے کہ مودی حکومت ملک کے 80 کروڑ لوگوں کو ماہانہ پانچ کلو اناج مفت دے رہی ہے۔

دریں اثنا دہلی کی ایک عدالت نے دہلی پولیس سے پوچھا ہے کہ کیا وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مبینہ قابل اعتراض تقریر کے خلاف رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔ اگر ہاں تو اس پر کیا کارروائی ہوئی اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ عدالت پانچ جون کو اگلی سماعت کرے گی۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم نے 21 اپریل کو راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور درانداز قرار دیا تھا۔

ان کی اس تقریر کے خلاف سینئر صحافی قربان علی نے 23 اپریل کو نئی دہلی کے حضرت نظام الدین پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی تھی۔ مگر پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

قربان علی کے مطابق وزیرِ اعظم کا بیان مثالی ضابطہ اخلاق اور تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس سے ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

پولیس کے رپورٹ درج کرنے سے انکار پر انہوں نے نئی دہلی کے ساکیت کی ایک عدالت میں درخواست جمع کرائی جس پر میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کارتک تاپڑیا نے دہلی پولیس کو مذکورہ ہدایت دی ہے۔

قبل ازیں متعدد اپوزیشن رہنماؤں نے الگ الگ مقامات پر وزیرِ اعظم کے خلاف مقدمات درج کرانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ ناکام رہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے ایک ایسی درخواست خارج کر دی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں جو کہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا ان پر چھ سال کے لیے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG