رسائی کے لنکس

برطانیہ میں فیک نیوز پھیلانے کا الزام؛ لاہور سے گرفتار ملزم رہا


  • ملزم فرحان آصف سے پہلے ہی یہ خبر شیئر کی جا چکی تھی: ایف آئی اے
  • خبر کو اپ لوڈ کرنے کے چھ گھنٹے بعد ڈیلیٹ کر دیا تھا: ملزم فرحان آصف کا عدالت میں بیان
  • عدالت نے تفتیشی کے بیان کے بعد ملزم فرخان آصف کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا منظور کر لی۔

لاہور -- برطانیہ میں فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں لاہور سے گرفتار ملزم کو مقدمے سے ڈسچارچ کر کے رہا کر دیا گیا ہے۔

مقامی عدالت کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے پیر کو برطانیہ میں فیک نیوز کے ذریعے فسادات پھیلانے کے کیس کی سماعت کی۔

وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے ملزم فرحان آصف کو چار روزہ جسمانی رہمانڈ کے بعد پیش کیا۔ جہاں تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے ہر طرح سے تفتیش کی گئی ہے۔ ملزم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں فسادات سے متعلق فیک نیوز فرحان آصف سے قبل بھی شیئر ہو چکی تھی۔ فرحان نے اس خبر کو ہی مزید آگے بڑھایا جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم نے یہ خبر کس کے ساتھ شیئر کی اور کب ڈیلیٹ کی؟

فرحان آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے اس خبر کو اپ لوڈ کرنے کے چھ گھنٹے بعد ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ عدالت نے تفتیشی کے بیان کے بعد ملزم فرخان آصف کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا منظور کر لی۔

ملزم کے ڈسچارج ہونے پر احاطۂ عدالت میں اس کی ہتھکڑی کھول دی گئی جس کے بعد فرحان آصف کو مقدمے سے بری کر دیا گیا اور اُنہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

معاملہ تھا کیا؟

برطانیہ میں ہنگاموں کا سلسلہ شمالی برطانوی قصبے ساؤتھ پورٹ میں 29 جولائی کو تین کمسن لڑکیوں کے قتل کے ردعمل میں شروع ہوا تھا جس کا سوشل میڈیا پر غلط طور پر الزام ایک مسلم پناہ گزین پر لگایا گیا تھا۔

ان جھوٹی خبروں کے پھیلنے کے بعد برطانیہ بھر کے شہروں اور شمالی آئرلینڈ میں بھی تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ لیکن حالیہ چند روز میں بدامنی کے واقعات میں ملوث افراد کی شناخت میں تیزی آنے کے بعد ہنگاموں اور تشدد میں کمی آ گئی ہے۔

فرحان آصف نامی شخص کو 20 اگست کو لاہور کے علاقے ڈیفنس سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ایف آئی اے نے فرحان آصف کے خلاف مقدمہ درج کر کے اُس کا جوڈیشل ریماند حاصل کیا تھا۔ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کی دفعات 9 اور 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ کی رشین سروس کے انوسٹی گیٹیو رپورٹر میتھیو کمپفر نے نو اگست کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پہلی مرتبہ اس فیک نیوز اور فرحان آصف کی ویب سائٹ 'چینل تھری ناؤ' کا انکشاف کیا تھا۔

برطانیہ کے قصبے ساؤتھ پورٹ میں ڈانس کلاس کے دوران مسلح شخص کے حملے میں تین کم سن بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔
برطانیہ کے قصبے ساؤتھ پورٹ میں ڈانس کلاس کے دوران مسلح شخص کے حملے میں تین کم سن بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 'چینل تھری ناؤ' نے خود کو امریکی ویب سائٹ ظاہر کر کے خبر دی کہ ساؤتھ پورٹ حملے کا ملزم 17 سالہ مسلمان پناہ گزین علی ال شکاتی ہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ حالاں کہ علی ال شکاتی نام کے نوجوان کو سرے سے کوئی وجود ہیں تھا اور نہ ہی 'چینل تھری ناؤ' کوئی امریکی نیوز ویب سائٹ ہے۔

غلط معلومات کے پھیلاؤ کی وجہ سے برطانوی پولیس نے اصل حملہ آور کی شناخت ظاہر کی تھی جس کی عمر 17 برس اور نام ایکسل روڈاکوبانا ہے۔ وہ نہ ہی مہاجر اور نہ ہی مسلمان، لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں ہنگاموں میں کمی نہیں آئی تھی۔

ملزم سے پہلے ہی فیک نیوز شیئر ہو چکی تھی: لاہور پولیس

ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران نے بھی ملزم کی گرفتاری کے وقت کہا تھا کہ فرحان آصف تیسرا شخص نے جس نے اِس خبر کو شئیر کیا۔ اُن کا کہنا تھا برطانیہ میں ہونے والے ہنگاموں کی خبر سب سے پہلے روس کی ویب سائٹ پر شیئر کی گئی۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ جب فرحان آصف نے یہ خبر شئیر کی تو یہ خبر مزید پھیلتی گئی اور وائرل ہو گئی۔ اُس کے بعد برطانوی نجی نشریاتی ادارے نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ خبر پاکستان سے نکلی ہے جب کہ 'بی بی سی ویری فائی' اور دیگر ذرائع نے کہا کہ پاکستانی شخص تیسرا بندہ ہے جس نے یہ خبر شئیر کی۔

ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا تھا کہ بات جب زیادہ بڑھی تو پاکستانی شخص فرحان آصف نے اپنے چینل سے خبر کو ہٹا دیا اور معافی نامہ لکھ دیا۔

ڈی آئی جی کے مطابق ملزم نے معافی میں لکھا کہ وہ ایک فری لانسر ہے۔ اُس نے صرف اپنے لائیکس اور فالورز بڑھانے کے لیے خبر کو پھیلایا تھا کیوں اُسے فری لانسنگ سے ماہانہ دو سے ڈھائی لاکھ روپے آمدنی ہوتی ہے۔

فرحان آصف نے بتایا کہ اُسے نہیں معلوم تھا کہ معاملہ اتنا بڑھ جائے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG