شام کے شمالی علاقے میں دولت اسلامیہ اور کُردوں کی مقامی ملیشیاؤں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
ایسے میں جب داعش کا شدت پسند گروہ کوبانے کے شمالی قصبے کی سمت پیش قدمی کی کوشش کر رہا ہے، جس خطے کو ’عین العرب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دو ہفتے کے بعد ترکی نے سرحد کے ساتھ ساتھ اپنی فوجی تعیناتی بڑھا دی ہے۔
اِن جھڑپوں کے نتیجے میں شامی کُرد نئے جنگی علاقے سے نکلنے پر مجبور ہو کر ترکی چلے گئے ہیں۔
امریکی سنٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ اتوار اور پیر کو شام میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں حلب، رقعہ، مانبج اور دیرالزعور کے قریب قریب کے اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
اس بمباری کے نتیجے میں جن اہداف کو نشانہ بنایا گیا اُن میں دولت اسلامیہ کی گاڑیاں، طیارہ شکن توپ خانے کی گاڑیاں، دو احاطے، ایک تربیت گاہ اور اناج اسٹور کرنے کا گودام شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ شام میں کی گئی اِن فضائی کارروائیوں میں امریکہ، متحدہ عرب امارات اور اردن کی افواج شامل ہیں۔
جہاں تک عراق کا تعلق ہے، امریکی فوج نے بتایا ہے کہ کیے جانے والے فضائی حملوں کے اہداف کرکوک، سنجار اور ملک کے شمال مغرب کے دیگر مقامات تھے، جن میں داعش کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکی قیادت والے اس اتحاد کی طرف سے شام اور عراق میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں کا مقصد کُرد اور عراقی افواج کی مدد کرنا ہے، تاکہ شدت پسندوں کے مقابلے میں اُن کے پیر مضبوط ہوں۔
دولت اسلامیہ کے پُر تشدد انتہا پسندوں نے اسی سال کے دوران اِن دونوں ملکوں کے ایک وسیع خطے پر اپنا کنٹرول جما لیا ہے۔