بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 100 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی ابتدا رواں سال 5 اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ ہوئی تھی۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔
اس اقدام کے خلاف ممکنہ عوامی درعمل روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے چار اگست کی رات کو کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تھا اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی تھیں۔ لینڈ لائن فون اور پوسٹ پیڈ موبائل سروس معطل جب کہ دیگر مواصلاتی ذرائع پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
پابندی کے باعث زندگی کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے۔ لیکن بعض پابندیاں اب بھی برقرار ہیں جن سے کاروبار زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں لیکن ان میں طلبہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
لاک ڈاؤن کے سبب کاروبار بھی ٹھپ ہے۔ کئی دکاندار احتجاجاً اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں۔ کچھ دکانیں کھلتی ہیں جو چند گھنٹوں بعد دوبارہ بند ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ تندور بھی ویران پڑے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بعض سڑکوں پر ناکے لگائے گئے ہیں جہاں موجود مقامی پولیس مبینہ طور پر ہر آنے جانے والے کی تلاشی لیتی ہے اور تفتیش کرتی ہے۔
سیکیورٹی فورسز کی وجہ سے بیشتر لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اب تک بحال نہیں ہو سکی ہے جس کے باعث لوگوں کو نقل و حرکت میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لاک ڈاؤن کے آغاز سے اب تک وادی کے بعض مقامات پر پر تشدد واقعات کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں۔ سری نگر میں دستی بم حملے بھی ہوئے جب کہ وقفے وقفے سے مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں۔ پولیس نے مظاہرین پر مبینہ طور پر پیلٹ گن سے فائرنگ بھی کی۔
منگل کو لاک ڈاؤن کے 100 دن مکمل ہونے پر کشمیری صحافیوں نے انٹرنیٹ پر پابندی کے خلاف اپنے لیپ ٹاپ کے ہمراہ خاموش مظاہرہ کیا۔
پابندیوں کے باعث خواتین کو کپڑے گلیوں میں چھپ چھپ کر پبلک نل پر دھونا پڑتے ہیں جب کہ خواتین گھر سے اکیلے نکلنا بھی مشکل سمجھتی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے ان 100 روز کے دوران سیکڑوں کشمیریوں کو "حفظِ ماتقدم" کے طور پر حراست میں لیا گیا ہے جب کہ کئی مقامی سیاسی رہنما نظر بند ہیں۔
گرفتار افراد کے والدین اور عزیز و اقارب کو ان سے دوری کا دکھ بھی برداشت کرنا پڑا۔
اس دوران پابندی سے تنگ آئے کشمیریوں نے کئی مرتبہ سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ بعض مقامات پر سیکیورٹی فورسز اور کشمیری مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
پابندی کے باعث وادی میں عوامی احتجاج معمول بن چکا ہے۔ بیشتر مظاہرے جمعہ کی نماز کے بعد ہوتے ہیں جن میں مردوں کے ساتھ بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
بعض مظاہروں میں کشمیری خواتین اور لڑکیاں بھی شریک ہوتی ہیں۔