پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی میں جتنی شدت آرہی ہے، اتنا ہی بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین مسئلے کے حل کے لئے کوئی آسان راستہ تجویز کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔
جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے امور پر امریکہ کے صدر براک اوباما کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزر بروس رائیڈل کہتے ہیں، ’’مجھے امید ہے کہ پچھلے ہفتے صدر اوباما اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان ملاقات میں کسی ممکنہ بحرانی صورتحال اور اس میں کیے جانےو الے اقدامات کے حوالے سے بات چیت ضرور ہوئی ہوگی۔ اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ پچھلے سال وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے موقع پر بھی ان کے اور صدر اوباما کے درمیان ایسی کسی ممکنہ صورتِ حال کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہوگی۔ لیکن بحران کا حل نکالنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ بحران کی تہہ میں موجود مسئلے کو حل کرنا ضروری ہوتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس حالیہ بحران کی تہہ میں کشمیر ہے۔ اس کا حل تلاش کرنا نا ممکن نہیں ہے لیکن اگر اسے بہت دیر تک نظر انداز کیا گیا تو مزید افرا تفری، مزید خطرات پیدا ہونگے اور ایک ایٹمی ہولو کاسٹ کا خطرہ بڑھے گا۔"
وائس آف امریکہ اردو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بروس رائیڈل کا کہنا تھا کہ مسئلہ صرف لائن آف کنٹرول پر موجودہ کشیدگی کا نہیں ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اس سال مئی میں افغانستان کے شہر ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ اس دن ہوا جب بھارتی وزیر اعظم مودی اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے۔ اس حملے کا واضح مقصد یہ تھا کہ بھارت میں نئی انتطامیہ کے آتے ہی ایک بحران پیدا کیا جائے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف بھی حلف برداری کی تقریب میں شریک تھے۔
بروس رائیڈل کے بقول، ’’پاکستان میں موجود بعض تاریک قوتیں جو بھارت اور پاکستان کے درمیان بحران اور تنازع پیدا کرنا چاہتی ہیں، نہ صرف مضبوط ہیں بلکہ بہت کچھ کرگزرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوبارہ کوئی بڑا بحران پیدا کرنے کی کوشش کریں گی، اس امید پر کہ اس کے بعد جو ہوگا اس سے ان کے مفادات پورے ہوسکیں گے۔"
پاکستانی تجزیہ کار فاروق حسنات کہتے ہیں کہ کشمیر کی سرحد پر جاری کشیدگی سے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے دورہ امریکہ کے بعد پیدا ہونے والی خود اعتمادی کی عکاسی ہوتی ہے، جبکہ پاکستان میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں کو نریندرا مودی کے وزیر اعظم بھارت بننے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
ان کے بقول، "مودی سخت گیر سوچ کے مالک سمجھے جاتے ہیں، جن کا کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر ہے۔ ایسے میں ان کا وزیر اعظم بننے کے بعد امریکہ کا دورہ اور واپسی کے بعد سرحد پر جھڑپوں کا شروع ہونا، پاکستان کو دبانے یا ڈرانے کی کوشش کے طور بھی دیکھا جا رہا ہے۔"
بھارت کے زیر ِانتظام کشمیر میں ریاستی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 245 کی رو سے بھارت میں کشمیر کو ایک خاص خودمختار (AUTONOMOUS) حیثیت حاصل ہے۔ اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا معاملہ مئی میں بھارت کے عام انتخابات میں بھی اٹھایا گیا تھا۔
فاروق حسنات کہتے ہیں کہ نریندرا مودی اور ان کی پارٹی چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 245 کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا جائے۔
’’مودی چاہیں گے کہ ان کی پارٹی اور ان کے حلیف کشمیر کے ریاستی انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائیں۔ پھر آرٹیکل 245 میں ترمیم کو کشمیر اسمبلی سے منظور کروائیں، تاکہ بھارتی آئین میں ترمیم کر دی جائے اور کشمیر کو ہندوستان کی یونین میں شامل کرلیا جائے۔"
اگرکشمیر کی لائن آف کنٹرول پر صورتحال مزید بگڑتی ہے یا تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور افغانستان سے امریکی افواج بھی نکل جاتی ہیں تو فاروق حسنات کے خیال میں، اس کے اثرات پاکستان پر لازمی طور پر پڑیں گے کیونکہ پاکستان کو دونوں طرف کی صورتحال سے نمٹنا پڑے گا۔
فاروق حسنات کہتے ہیں کہ مودی بی جے پی کے سابق وزیر اعظم واجپائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امن کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا نہیں، ابھی یہ واضح ہونے میں ایک، دو ماہ لگیں گے۔
لیکن کیا حالیہ سرحدی کشیدگی کے بڑھنے میں بھارتی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دوران امریکہ کا بھارت پر پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے لئے زور نہ دینا بھی کسی قدر اہمیت کا حامل ہے؟
سابق امریکی مشیر بروس رائیڈل کہتے ہیں کہ امریکہ میں بھارتی وزیر اعظم کی تمام اعلٰی سطحی ملاقاتوں میں ایک عنصر واضح طور پر ’مسنگ‘ تھا، یعنی امریکہ کی طرف سے بھارت پر پاکستان سے اچھے تعلقات رکھنے کے لئے زور۔
فاروق حسنات کہتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے ایجنڈے میں پاک بھارت تعلقات شامل ہی نہیں تھے۔
’’نہ تو پاکستان نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ ثالث کا کردار ادا کرے۔ نہ ہندوستان نے امریکہ سے کہا تھا کہ وہ ثالث کا کردار ادا کرے اور دونوں پڑوسیوں کے تعلقات کو معمول پر لانے میں کوئی کردار ادا کرے۔ ثالثی تو کوئی ملک تب کر سکتا ہے، جب دونوں فریق اتفاق کریں، چونکہ دونوں ملکوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی تو امریکہ کو اس بارے میں کوئی بات کہتے ہوئے عجیب ہی لگتا۔"
ماہرین کی رائے اپنی جگہ، مگر کنٹرول لائن کے دونوں اطراف ہونے والی گولہ باری کا سب سے زیادہ جانی اور مالی تاوان ان عام انسانوں کو بھرنا پڑ رہا ہے، جو سیاسی مفاد، جغرافیائی پیچ و خم اور انتخابی جمع و تفریق سے پرے، کشمیر جنت نظیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اپنا آج اور آنے والا کل تلاش کر رہے ہیں۔