سکھ مذہب کا مقدّس مقام گوردوارہ کرتار پور صاحب پاکستان کی حکومت کے اعلان کے مطابق تیزی سے مکمل ہونے کے قریب ہے۔
عمران خان کی حکومت میں شاید یہ واحد تعمیراتی منصوبہ ہے جو اس قدر تیزی سے مکمل ہوا۔ وگرنہ بی آر ٹی پشاور اور دو کلو میٹر طویل اسلام آباد کے ایمبیسی روڈ کی مثالیں ہی لے لی جائیں تو تعمیرات میں ان کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کرتار پور راہداری کا فیصلہ اور اس سے متعلق معاملات اس وقت شروع ہوئے جب عمران خان کی بطور وزیرِ اعظم حلف برداری کی تقریب میں بھارت سے آئے عمران خان کے مہمان نوجوت سنگھ سدھو نے بھی شرکت کی۔
نوجوت سنگھ سدھو کو پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تقریب کے دوران ’جادو کی جپھی‘ دی اور کرتار پور لاہنگا کھولنے کے حوالے سے بات کی۔
اگست 2018 میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد معاملات اتنی تیزی سے آگے بڑھے کہ 28 نومبر 2018 کو اس راہداری کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔
کرتار پور راہداری کے سنگِ بنیاد کی تقریب اور اس پر کام کے حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف تصاویر اور تفصیلات دیکھنے کے بعد اشتیاق تھا کہ اس راہداری پر کام کی موجودہ رفتار کو دیکھا جائے۔
گزشتہ روز اس حوالے سے موقع ملا تو کرتار پور پہنچے جہاں صحافیوں کو اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر عاطف مجید نے تفصیلی بریفنگ دی۔
کرتار پور کوریڈور صرف ایک راہداری نہیں بلکہ اس میں سڑک کے ساتھ ساتھ ایک کمپلیکس بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق اس کمپلیکس کی تعمیر میں سکھوں کے تمام مذہبی عقائد اور ان سے منسلک چیزوں کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان سکھ پربندھک کمیٹی اور گلوبل سکھ فورم کی جانب سے تمام معاملات پر اتفاق کے بعد ہی تعمیرات کی گئی ہیں۔ ان تعمیرات کے بعد صرف چار ایکڑ پر موجود گوردوارہ دربار صاحب اب 823 ایکڑ پر پھیل چکا ہے جس میں 6.8 کلومیٹر طویل سڑک بھی شامل ہے۔
گوردوارہ کمپلیکس 400 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ جس کے گرد کسی سیلاب کے خدشے کے پیشِ نظر حفاظتی بند بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گوردوارہ کے عقبی طرف بابا گورونانک کی کھیتی تھی، جو اب بھی رکھی گئی ہے اور 104 ایکڑ زمین اس مقصد کے لیے مختص کردی گئی ہے۔ ایک ہی وقت میں 2 ہزار یاتریوں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک بڑا لنگر ہال بھی تعمیر کر لیا گیا ہے۔
کرتار پور راہداری منصوبے میں فی الحال 700 یاتریوں کے ٹہرنے کے لیے مہمان خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ لیکن مستقبل میں ٹینٹ ویلج اور فائیو اسٹار ہوٹلز بھی اس منصوبے کا حصّہ ہیں۔ زائرین کے لیے طبّی سہولیات اور ایک شاپنگ مال کا منصوبہ بھی جلد پیش کیا جائے گا۔
یہ راہداری منصوبہ دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ پہلا مرحلہ 9 نومبر کو مکمل ہوگا جس کے بعد اس منصوبے کا افتتاح کیا جائے گا۔
کرتار پور راہداری کا افتتاح 12 نومبر کو بابا گورو نانک کے 550 ویں جنم دن سے تین دن قبل ہونا ہے، جس کے بعد سکھ زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
پاکستان نے اس منصوبے کے تحت روزانہ 500 یاتریوں کے آنے کا کہا تھا۔ لیکن بھارت نے پانچ ہزار زائرین اور اہم دنوں میں 10 ہزار افراد کے آنے کا کہا، جس پر پاکستان نے ان کے لیے انتظامات کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
گوردوارہ کی زیارت کے لیے آنے والے سکھ یاتری بھارت کی طرف سے زیرو پوائنٹ سے پاکستان میں داخل ہوں گے جہاں ایک گیٹ سے انہیں انٹری دی جائے گی اور دن 12 بجے آمد کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد 300 میٹر کے فاصلے پر ایک بارڈر ٹرمینل تعمیر کیا گیا ہے جہاں فی الحال 76 کاؤنٹرز قائم کیے گئے ہیں جن کے ذریعے آنے والے افراد کو انٹری دی جائے گی۔
ان کاؤنٹرز کی تعداد دگنی کرنے لیے بارڈر ٹرمینل کے ساتھ ملحقہ عمارتیں بھی بنائی جا رہی ہیں، یہاں سے میٹرو بس سروس کے لیے استعمال ہونے والی بسیں استعمال کی جائیں گی اور یاتریوں کو کمپلیکس تک پہنچایا جائے گا۔
سکھ یاتریوں کی فرمائش پر انہیں پیدل جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے اور اس مقصد کے لیے فٹ پاتھ بنایا گیا ہے۔ لیکن کمپیلکس کی عمارت تک دونوں اطراف سے خاردار تاروں اور اونچی باڑ کے ذریعے راستے کو بند کیا جائے گا اور سخت سکیورٹی انتظامات بھی کیے جائیں گے۔
کرتار پور دربار صاحب پر پاکستان اور بھارت سے آنے والے تمام سکھ یاتری ایک ساتھ جمع ہوں گے۔ تمام پاکستانی اور بھارتی سکھ یاتریوں کی آمد و رفت بائیو میٹرک کے ذریعے ہو گی۔ اس کے ساتھ ایک شناختی پرمٹ بھی ہوگا جو واپسی پر جمع کرانا لازمی ہو گا۔
اس کے باوجود کمپلیکس کی سکیورٹی کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر مزید مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
کرتار پور کمپیلکس کےساتھ پاکستان نے دریائے راوی پر ایک اہم پل بھی تعمیر کیا ہے۔ آٹھ سو میٹر طویل یہ پل پاکستان کی حدود میں ہے جسے ریکارڈ وقت میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ دریا میں پانی زیادہ آنے کی صورت میں ایک الگ نہر بھی بنائی گئی ہے تاکہ دربار صاحب جانے والے راستے کو محفوظ رکھا جا سکے۔
پاکستان اور بھارت کی سرحد (زیرو پوائنٹ) پر وہ مقام جہاں گیٹ تعمیر ہونا ہے وہاں ابھی پاکستان اور بھارت کے فوجی آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ فی الحال جستی چادریں اور خاردار تاریں لگا کر گیٹ بنایا گیا ہے۔
زیرو پوائنٹ پر بھارت کی طرف ایک پل بھی زیرِ تعمیر ہے جس کے بارے میں پاکستانی حکام نے بتایا کہ زیرو پوائنٹ پر بڈھا راوی کی گزرگاہ ہے۔ یعنی ماضی میں دریائے راوی یہاں سے گزرا کرتا تھا۔ لیکن اب راستہ تبدیل کرکے سرحد سے ایک کلومیٹر اندر چلا گیا ہے۔
لیکن سیلاب آنے کی صورت میں یہاں بھی پانی آسکتا ہے۔ پاکستان نے یہاں پر پل بنانے کی تجویز کو تسلیم کر لیا ہے۔ بھارت نے اپنے حصے کا 68 میٹر کا پل تعمیر کر لیا ہے جب کہ پاکستان کے حصّے کا 330 میٹر طویل پل دوسرے مرحلے میں مکمل ہوگا۔
پہلے مرحلے میں بڈھا راوی کے اندر سڑک بنا کر زیرو پوائنٹ پر بھارت کی سرحد تک سڑک مکمل ہو چکی ہے۔
یہ شاید پہلا موقع تھا کہ صحافی آزادانہ انداز میں اس زیرو پوائنٹ پر تصاویر اور ویڈیو بناتے رہے اور اپنا کام مکمل ہونے کے بعد اپنی تصویریں بھی کھچواتے رہے۔
رینجرز کے حکام نے جب صحافیوں کو واپس بھیجنا چاہا تو بس اتنا کہا کہ صاحب واپس چلیں، انڈینز پریشان ہو کر کچھ الٹا سیدھا نہ کر دیں کہ اتنے لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔
زیرو پوائنٹ پر 15-20 میٹر دور نظر دوڑائی تو بھارتی پل پر مزدور کام میں مصروف تھے اور بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ پاکستان کی طرف پنجاب رینجرز کے اہلکار بندوقوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
اس موقع پر اچانک مجھے کچھ عرصہ قبل ہالینڈ سے بیلجیم جانے کا سفر یاد آ گیا جس میں میں نے گاڑی چلاتے اپنے دوست سے پوچھا کہ بیلجیم کب آئے گا تو اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ شاید آگیا ہو۔ اسی لمحے موبائل پر “ویلکم ٹو بیلجیم‘‘ کا پیغام آیا تو پتہ چلا کہ ہم بیلجیم کی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔
ایک وہ سرحد بھی تھی اور ایک یہ بھی سرحد ہے۔