کراچی کے حلقہ این اے 249 بلدیہ ٹاؤن کے ضمنی انتخاب کا تو گزشتہ کئی ماہ سے ہی انتظار تھا لیکن اچانک گزشتہ چند ہفتوں سے کرونا وبا کی شدت اور بھارت کی خوف ناک صورتِ حال نے انتخابات کی کوریج سے قبل کئی خدشات پیدا کر دیے۔ لیکن ظاہر ہے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھانے کے لیے بہرحال میدان میں تو اترنا ہی تھا۔ سوچا ماسک دو تین رکھ لیے جائیں اور سینیٹائزر کی بھی نئی بوتل خرید لی جائے۔
صبح جب حلقے میں اپنے کیمرہ مین کے ہمراہ پہنچے تو پہلے تو حالات کا جائزہ لیا کہ آخر کرونا کے دور میں انتخابات کیسے ہو رہے ہیں۔ ذہن میں اچانک نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات اور پھر حال ہی میں ہونے والے ڈسکہ الیکشن کا منظر نامہ گھومنے لگا۔
لیکن کچھ دیر جائزہ لینے اور پولنگ اسٹیشنز کے دورے کا بعد ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی کے اس حلقے کے شہری بھی بظاہر کرونا سے خوف زدہ دکھائی نہیں دیے۔ لیکن پولنگ اسٹیشنز پر رش کم رہا۔
اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کرونا ایس او پیز کو انتخابی عمل کے دوران لازم قرار دیا گیا تھا، عملے اور ووٹرز دونوں کو ہدایات دی گئی تھیں کہ ان کے لیے ماسک کا استعمال ضروری ہے۔ مگر بہت کم لوگ ہی ان احتیاطی تدابیر پر پوری طرح عمل پیرا نظر آئے۔
پولنگ اسٹیشن نمبر 157 بلدیہ ٹاؤن پر ڈیوٹی موجود کانسٹیبل لیاقت (اصل نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے غیر معمولی طور پر ماسک کے ساتھ گلوز بھی پہن رکھے تھے جب کہ اس کے باوجود بھی وہ وقفے وقفے سے سینیٹائزر بھی استعمال کر رہے تھے۔
میں نے ان کو تعارف کروا کر اس کی وجہ دریافت کی تو کہا "بھائی ایک بار کرونا کا شکار ہو کر صحت یاب ہو چکا ہوں، دوسری بار بیوی شکار ہوئی۔ 60 گز کے مکان میں ہم نے کیسے قرنطینہ کیا اور اپنے بچوں کو اس سے کیسے بچایا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ احتیاط اسی لیے کر رہا ہوں کہ کہیں دوبارہ اس کا شکار نہ ہو جاؤں کیوںکہ پولیس والوں کو تو ویکسین نہ جانے کب لگے۔"
چالیس سالہ نعمان اپنی بزرگ والدہ کو پولنگ اسٹیشن لائے تھے۔ پولیس اہل کاروں کے کہنے پر فوراً ہی ماسک خود بھی پہن لیا اور والدہ کو بھی پہنایا۔ کہنے لگے کرونا اگر اتنا ہی خطرناک ہے تو الیکشن کچھ عرصے بعد ہو جاتے، ہماری زندگیوں پر تو اس کا ویسے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ایک اور بزرگ عبدالجلیل کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتی اگر واقعی کرونا کے پھیلاؤ روکنے میں حکومت سنجیدہ ہے تو الیکشن کرانے میں ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ ملک میں اسکول، کالج اور تعلیمی ادارے تو بند ہیں، کاروبار چھ بجے کے بعد بند ہے۔ کئی علاقوں میں مکمل لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے۔ اسپتال بھرتے جا رہے ہیں مگر الیکشن پھر بھی کرائے جا رہے ہیں۔ پوچھنے لگے کیا یہ تضاد نہیں؟
کوریج کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے کیمپوں کا بھی دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ گہما گہمی وہ نہیں جو عام انتخابات میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس الیکشن پر پاکستان بھر کی نظریں ہیں۔
کچھ لوگوں کے خیال میں الیکشن کا عمل کرونا وبا میں بھی نہ روکے جانا خوش آئندہ ہے۔ عامر رحمان ایسے ہی ووٹرز میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حلقے سے 2018 میں منتخب ہونے والے فیصل واوڈا شروع میں باقاعدگی سے حلقے کا دورہ کرتے تھے اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ ان کے علاقے نیو سعید آباد میں پانی کا مسئلہ حل کروا کر ہی دم لیں گے۔
عامر کے بقول کچھ علاقوں میں عملی کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن جلد ہی انہوں نے حلقے میں آنا کم کر دیا اور رفتہ رفتہ ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہی ہو گیا۔
البتہ رکن صوبائی اسمبلی شہزاد اعوان یہاں ضرور نظر آتے رہے۔ عامر رحمان کے مطابق لوگ اپنے حلقے میں پینے کے پانی، سڑکوں کی صورتِ حال سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے منتخب نمائندوں ہی کے پاس جاتے ہیں جو ووٹ لینے سے قبل ان مسائل کو حل کرنے کے وعدے اور دعوے کرتے ہیں۔
ووٹنگ کا ٹرن آوٹ تو بہت ہی کم دیکھنے میں آیا اور لوگوں کا جوش و خروش بھی۔ اس کی وجہ چاہے کرونا ہو، رمضان کا مہینہ ہو یا پھر گرمی کا موسم لیکن جمہوری عمل اگر پھر بھی چل رہا ہے تو یہ خوش آئند ہے۔ لیکن اس کا معیار کیا ہے اس پر پھر کبھی سہی۔