|
اسلام آباد _ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پریونشن آف الیکٹرک کرائمز (پیکا) ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اب اسے سینیٹ میں بھی پیش کردیا گیا ہے۔ صحافتی تنظیموں سمیت بعض سیاسی جماعتوں نے بل کی شدید مخالفت کی ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ پیکا ترمیمی بل سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے 'جھوٹ' کو روکنے کے لیے ضروری ہے جب کہ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے جس انداز میں یہ بل ایوان سے مںظور کروایا جا رہا ہے اس سے اس کی شفافیت مشکوک ہورہی ہے۔
صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل ضروری ہے تو اس کے لیے مشاورت شروع کی جائے۔
جمعے کو سینیٹ کی کارروائی کے دوران وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تو پی ٹی آئی ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ اس موقع پر گیلری میں بیٹھے صحافی بھی احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے۔
ڈپٹی چئیرمین سینٹ نے صحافیوں کے واک آؤٹ اور پی ٹی آئی کے احتجاج پر پیکا ایکٹ ترمیمی بل متعلقہ سینیٹ کمیٹی کے سپرد کردیا اور اجلاس پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا۔
حکومت کی طرف سے سینیٹ میں پیش کردہ یہ بل اگرچہ وزارتِ داخلہ کا ہے۔ لیکن اس میں وزارتِ اطلاعات و نشریات زیادہ متحرک نظر آرہی ہے اور اس کا دفاع بھی وزارتِ اطلاعات و نشریات ہی کررہی ہے۔
مجوزہ ترمیم کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کے پاس سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار ہو گا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کی مجاز ہو گی۔
'ہم سے کسی نے بات ہی نہیں کی'
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)کے صدر افضل بٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پہلا اعتراض یہی ہے کہ حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر مشاورت کا کہنے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں کیا اور اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرکے اسے منظور کروالیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بل اس وجہ سے مشکوک ہو چکا ہے کہ اسے اسٹیک ہولڈرز کو دکھایا ہی نہیں گیا ہے۔ اگر حکومت کوئی کام نیک نیتی سے کررہی تھی تو اسے ڈسکس کرنے میں کیا تھا۔
افضل بٹ کے مطابق حکومتی کی جانب سے بل کواچانک قومی اسمبلی سے منظور کروانے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول، پیکا ترمیمی بل کے تحت ایک اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جس کا رکن کون ہوگا اور وہ کس طرح سے ڈیل کرے گی، کچھ بھی کلئیر نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں ہم صحافی خود کو اس بل سے متاثر ہوتے نظر آرہے ہیں۔
دوسری جانب حکومت پیکا ترمیمی بل کو اہم سمجھتی ہے۔ حکومتی رکنِ قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے مادرپدر آزادی ہے اور لوگوں کی عزتیں اچھالی جارہی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے کسی ایک کے خلاف بھی ایکش نہیں لیا جاسکا۔ اب اس قانون کی مدد سے ایسے تمام لوگوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں میڈیا کی آزادی کے ساتھ ساتھ اسے ریگولیٹ کر کے ریاست کے خلاف بیانیے کو روکا جاتا ہے۔ ان کے بقول، حکومت آزادیٔ رائے کے حق میں ہے لیکن جہاں ریاست کے معاملات آتے ہیں وہاں حکومتی عمل دخل ضروری ہے۔
حکومت نے کیسے اندازہ لگایا کہ پیکا ایکٹ نامکمل تھا؟
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی نگہت داد کہتی ہیں کہ حکومت کی طرف سے بنائے گئے پیکا ایکٹ پر ابھی لوگوں کے اعتراضات ختم نہیں ہوئے تھے کہ اب نئی ترامیم بھی لائی جارہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں جن چیزوں پر اعتراض کیا گیا تھا اب ان میں مزید اضافہ کیا گیا ہے، تفتیشی اداروں کا کردار بڑھا دیا گیا ہے، جوائنٹ انکوائریز کی اجازت دے دی گئی ہے، اس سے صحافتی آزادیوں اور سول رائٹس پر کام کرنے والوں پر اثر پڑے گا۔
نگہت داد نے کہا کہ پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق انٹرنیشنل اداروں کےمعاہدوں پر دستخط کررکھے ہیں، اس کی موجودگی میں شخصی آزادیوں پر قدغن کیسے لگائی جاسکتی ہے، کس طرح سوشل میڈیا کو بند کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیک نیوز یا پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے حکومت نے کس اسٹیک ہولڈر سے بات کی؟ کس صحافی کو اعتماد میں لیا؟ ایسی قانون سازی کسی بھی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔
پیکا ترمیمی ایکٹ میں کیا کچھ ہے؟
مجوزہ پیکا ایکٹ ترامیم کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی اور اتھارٹی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں‘ میں تجاویز دے گی۔
یہ اتھارٹی تعلیم اور تحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، اتھارٹی صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
مجوزہ ترامیم میں ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کی نئی تعریف شامل کی گئی ہے اور سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر زکا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
مجوزہ ترامیم کے مطابق اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے ’رجسٹرڈ‘ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔اتھارٹی کے پاس حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک یا ہٹانے کا حکم دینے کا اختیار ہوگا۔
مجوزہ ترامیم میں توہینِ عدالت، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی اور بلیک میلنگ سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
پیکا ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک نئی شق کی تجویز شامل ہے۔ مجوزہ ترمیم میں قانون میں بیان کردہ اصطلاحات کی تعریف شامل ہے۔ تعریف میں ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
مجوزہ ترامیم کے تحت اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار ہو گا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کی مجاز ہو گی۔
اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔
یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ممبران پر مشتمل ہو گی، وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین ارکان کا تقرر کرے گی۔ سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے ممبران ہوں گے۔
اتھارٹی میں تمام فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے کیے جائیں گے۔ چیئرپرسن کو کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا خصوصی اختیار ہوگا۔ چیئرپرسن کے فیصلے کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں کے اندر ’توثیق‘ کرنا ہو گی۔
مسودے کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف 60 روز کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام
ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔
ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام دفاتر اور مقدمات ایجنسی کو منتقل ہو جائیں گے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے اور بجٹ ایجنسی کو منتقل ہو جائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ممبران پر مشتمل ہو گی۔ پانچ ممبران کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔
فورم