بیتھیسڈا، میری لینڈ ۔۔۔ جان نثار اختر کے گھر 1945ء میں جب ایک ننھے بچے نے آنکھ کھولی تو اپنی ایک نظم کے مصرعے ’لمحہ لمحہ کسی جادُو کا فسانہ ہوگا‘ کی نسبت سے اُس بچے کا نام ’جادُو‘ رکھا گیا۔۔۔ کچھ عرصے بعد یہ نام بدل کر ’جاوید‘ کر دیا گیا کہ جادُو سے قریب تر تھا۔۔۔
جاوید اختر نے ایک علمی گھرانے میں پرورش پائی اور ادب سے محبت انہیں گویا وراثت میں نصیب ہوئی۔۔۔ مُضطر خیر آبادی (شاعر) دادا، جان نثار اختر والد تھے تو مجاز لکھنوئی جیسے بلند قامت شاعر جاوید کے ماموں تھے۔۔۔ یہ گھر کے ماحول کا اثر ہی تھا کہ جاوید نے لڑکپن میں ہی اردو اور دنیا کی مختلف زبانوں کا کلاسیکی ادب پڑھنا شروع کر دیا اور جس عمر میں بچے کھیل کود میں دلچسپی لیتے ہیں اس عمر میں جاوید کو اردو کے ہزاروں شعر زبانی یاد تھے۔۔۔ یوں یہ تعجب کی بات نہیں کہ سکول اور کالج میں جاوید تقریروں اور بیت بازی کے لیے شہرت رکھتے تھے۔۔۔
اُردو کے سینکڑوں شعراء کے دیوان پڑھ لینے اور عمدہ شعر سے شغف رکھنے کے باوجود جاوید اختر نے اپنی زندگی میں شاعری کو قدرے تاخیر سے اختیار کیا۔۔۔ 80ء کی دہائی کے بعد بالی وُوڈ کو یقیناً ایسے بے حساب نغمے عطاء ہوئے جنہیں آج بھی شوق سے سنا جاتا ہے اور جن کے لیے جاوید اختر کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔۔
تو پھر فلموں میں گیت نگاری اور عام شاعری میں کیا فرق ہے؟ کیا فلمی شاعری نسبتاً کم درجے کی شاعری ہے؟ جاوید سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، اصل کمال شاعر کا ہے کہ وہ کتنی مشاقی سے اپنے کام کو نبھاتا ہے، لفظوں سے کھیلتا ہے اور انہیں گیت، غزل یا نظم میں ڈھالتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید کے فلمی نغمے ہوں یا ’ترکش‘ اور ’لاوا‘ جیسے شعری مجموعے، تمام کام جاوید کے دل سے بہت قریب ہے۔۔۔
جاوید اختر گذشتہ دنوں علی گڑھ مشاعرے میں شرکت کے لیے واشنگٹن تشریف لائے تو مدیحہ انور نے ان سے ملاقات کی۔۔۔ اس ملاقات کی تفصیل وڈیو میں ملاحظہ فرمائیے۔۔۔