ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ’’انتہا پسندوں کی حمایت اور فرقہ وارانہ نفرت کے فروغ یا مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے تعمیری اکائی بننے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘‘
امریکی روزنامہ ’نیو یارک ٹائمز‘ میں ایک مضمون میں جواد ظریف نے سعودی عرب کی طرف سے ایران جوہری معاہدے کی مخالفت، یمن میں اس کی فوجی کارروائیوں اور ایرانی سفارتی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی۔
انہوں نے گزشتہ برس حج کے موقع پر بھگدڑ کے واقعے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے پر بھی تنقید کی۔
گزشتہ سال ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن اور شام کے تنازعات پر مزید کشیدگی پیدا ہوئی جہاں دونوں ملک مخالف طرفین کی حمایت کرتے ہیں۔
ایک ہفتہ قبل ایران میں سعودی عرب کے سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مظاہرین سعودی عرب کی طرف سے ایک معروف شیعہ عالم دین کو سزائے موت دیے جانے کے واقعے کے خلاف کیے گئے۔
جواد ظریف نے شیخ نمر النمر کی سزائے موت کو ’’وحشیانہ‘‘ قرار دیا اور پھر سعودی عرب کی طرف سے ایران کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات کا تذکرہ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ایران کی حکومت نے اپنا رد عمل سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی صورت میں ظاہر نہیں کیا۔
’’ہم نے اب تک تحمل سے کام لیا ہے مگر یک طرفہ دانشمندی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ایران کو خطے میں کشیدگی میں اضافے میں کوئی دلچسپی نہیں ہمیں انتہا پسندوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عبدل الجبیر نے اتوار کو ایران کے خلاف ایسا ہی سخت بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تہران نے فرقہ وارانہ جارحیت، دہشت گردی اور تشدد کو جاری رکھا تو ’’عرب ممالک اس سے میل جول ختم کر دیں گے۔‘‘
الجبیر عرب لیگ کے وزرائے خارجہ ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جس میں انہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ایران میں سعودی سفارتخانے پر حملے اور ایران کی طرف سے عرب معاملات میں مداخلت کی مذمت کی گئی۔
لبنان واحد عرب ملک تھا جس نے اس بیان کی حمایت نہیں کی۔ لبنان میں بڑی تعداد میں شیعہ آباد ہیں اور ایران کی حمایت یافتہ شدت پسند تنظیم حزب اللہ بھی لبنان میں قائم ہے۔
عرب لیگ کے اجلاس سے قبل ہفتے کو صورتِ حال پر غور و خوض کے لیے چھ خلیجی عرب ملکوں کی نمائندہ تنظیم 'خلیج تعاون کونسل' کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے ایران کے خلاف "مزید اقدامات" کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاحال سعودی قیادت نے ان "مزید اقدامات" کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔