بہت کم لوگوں کو پتا ہو گا کہ جاپان کے خودکشی کے جنگل کا اصل نام کیا ہے۔ خودکشی کرنے والوں کو بھلا نام سے کیا غرض، جب کسی کا خودکشی کرنے کو دل چاہتا ہے تو وہ اس جنگل کا رخ کرتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ 7 صنعتی ملکوں میں جاپان کو یہ اولیت بھی حاصل ہے کہ وہاں سب سے زیادہ خودکشیاں ہوتی ہیں۔
خودکشی کا جنگل جاپان میں ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ بلکہ اس کی تاریخ بھی کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ ذکر ہے سن 864 کا جب اس علاقے میں واقع آتش فشاں پہاڑ فیوجی اچانک پھٹ پڑا اور لاوا اگلنے لگا۔ ماؤنٹ فیوجی کا لاوا تقریباً 30 کلومیٹر رقبے میں پھیل گیا۔
جب لاوا آہستہ آہستہ سرد ہوا تو وہاں پودے سر نکالنے لگے اور پھر آنے والے برسوں میں وہاں ایک اتنا گھنا جنگل کھڑا ہو گیا جہاں سورج کی روشی کے لیے بھی زمین تک پہنچنا محال ہو گیا اور وہ ایک ایسا جنگل بن گیا جہاں دن کے وقت بھی رات جیسا منظر ہوتا ہے۔
لاوے نے زمین کی سطح کو بھربھرا اور مسام دار بنا دیا ہے، جو آوازوں کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس تاریک جنگل کے زیادہ تر حصوں میں موت جیسی خاموشی چھائی رہتی ہے۔
اس جنگل کو جاپانی زبان میں’ اوکی گاہارا‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے درختوں کا سمندر۔ یہ نام کب پڑا، کوئی نہیں جانتا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ پچھلی صدی کے وسط تک اس جنگل میں خودکشی کی کبھی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک اوکی گاہارا کو ایک مقدس جنگل کی حیثیت حاصل تھی اور کئی جاپانی اس کی پوجا کرتے تھے۔
1970 کے عشرے میں جنگل سے کئی ایسے مہم جوؤں کا گزر ہوا جنہیں لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی تھی۔ پھر کیا تھا آنے والے دنوں اوکی گاہارا پر کئی ایسے ناول لکھے گئے۔ پھر فلمیں اور ٹیلی وژن سیریز بننے لگیں۔ اور اچانک کسی مصنف کی قوت تخیلہ نے اس جنگل کو خودکشی کے لیے ایک مثالی مقام بنا کر پیش کیا۔ آنے والے برسوں میں کئی فلموں اور ڈراموں میں اس جنگل میں خودکشی کے مناظر فلمائے گئے۔
بس پھر کیا تھا، جاپانی جو دنیا کے ددسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں، اوکی گاہارا کا رخ کرنے لگے اور اونچے گھنے درختوں کی تاریک چھاؤں میں انسانی نعشیں ملنے کے واقعات بڑھنے لگے۔
جنگل میں خودکشی کے زیادہ تر واقعات مارچ کے دوران ہوتے ہیں جو جاپان کے مالی سال کا آخری مہینہ ہے۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اکثر خودکشیوں کا سبب مالی پریشانیاں ہوتی ہیں۔
جنگل میں نعشیں تلاش کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر خودکشیاں درخت سے پھندا لگا کر لٹکنے اور بھاری مقدار میں منشیات کھا کر کی جاتی ہیں۔
جاپان میں ہر سال 20 ہزار سے زیادہ لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں۔ تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے جاتے کہ خودکشی کا جنگل ان میں سے کتنے لوگوں کا آخری ٹھکانہ بنتا ہے۔ اعداد و شمار جاری نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خودکشی کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔
جاپان کے مختلف حصوں میں خودکشی کی شرح مختلف ہے۔ لیکن یاماناشی کے علاقے میں، جہاں یہ جنگل واقع ہے، خودکشی کی شرح پورے جاپان میں سب سے زیادہ ہے۔
مقامی آبادی کو شکایت ہے کہ میڈیا نے ایک مقدس جنگل کو خودکشی کا جنگل بنا کر پیش کیا اور خودکشی کرنے والوں کو یہ ترغیب دی کہ وہ اس جنگل میں آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کریں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اوکی گاہارا سے ملنے والی زیادہ تر نعشیں اجنبیوں کی ہوتی ہیں۔
ایک مقامی باشندے واتان ابے کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس جنگل کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی۔ اب تو بیرونی ملکوں سے بھی لوگ خودکشی کے لیے اوکی گاہارا کا رخ کرنے لگے ہیں۔
دوسری جانب غیرملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہ دیکھنے کے لیے بھی اس جنگل میں آتی ہے کہ مسام دار زمین پر قدم رکھ کر، گھنے درختوں کے تاریک سائے سے گزرتے ہوئے، جہاں اپنی آواز بھی گہرا سکوت توڑنے میں ناکام رہتی ہے، کیا محسوس ہوتا ہے۔
جنگل کے داخلی دروازے پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ زندگی آپ کے والدین کی جانب سے آپ کو دیا جانے والا ایک قیمتی تحفہ ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہاں سکون سے بیٹھ کر اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے بچوں کے بارے میں سوچیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہمیں اس نمبر پر فون کریں۔
ایک رضا کار نے بتایا کہ فون کرنے کے بعد خودکشی کی نیت سے آنے والے کئی لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
ایک اور رضاکار کوچی جنگل کے داخلی دروازے پر گٹار بجا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ موت کا سکوت توڑنے کے لیے زندگی کا راگ بجا رہا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایک روز خودکشی کا جنگل ایک روز پھر سے مقدس جنگل بن جائے گا اور لوگ یہاں عبادت کے لیے آیا کریں گے۔