رسائی کے لنکس

امن عمل میں اسرائیل اپنی ساکھ کھو چکا ہے: اوباما


اوباما نے کہا کہ نیتن یاہو کے مؤقف میں ’’اتنے مطالبات، اتنی شرائط ہیں کہ یہ سوچنا حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا کہ مستقبل قریب میں کبھی ان شرائط کو پورا کیا جا سکے گا۔"

امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے اسرائیل عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلے پر اپنی ساکھ کھو رہا ہے کیونکہ یہ واضح نہیں کہ وہ پرامن تصفیے جس میں فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہو، کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔

اوباما نے یہ بات اسرائیل کے ٹیلی وژن ’چینل 2‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کو کہی۔

صدر سے وزیر اعظم نیتن یاہو کے الیکشن سے قبل دیے گئے ایک بیان کے بارے میں سوال کیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی قیادت میں فلسطینی ریاست کبھی قائم نہیں ہو گی۔ نیتن یاہو نے اس کے بعد اپنے بیان سے ہٹنے کی کوشش کی تھی مگر فلسطینی اور مغربی سفارت کار ان کی طرف سے امن کی پیشکش کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اوباما نے کہا کہ نیتن یاہو کے مؤقف میں ’’اتنے مطالبات، اتنی شرائط ہیں کہ یہ سوچنا حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا کہ مستقبل قریب میں کبھی ان شرائط کو پورا کیا جا سکے گا۔ خطرہ یہ ہے کہ اس سے اسرائیل کی مجموعی ساکھ خراب ہو گی۔ پہلے ہی بین الاقوامی برادری کو یقین نہیں کہ اسرائیل دو ریاستی حل چاہتا ہے۔‘‘

امریکہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن مذاکرات ایک سال سے زائد عرصہ قبل تعطل کا شکار ہو گئے تھے، جن میں فلسطینیوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم سمیت ان علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری کر رہا ہے جہاں وہ ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اوباما نے کہا ہے کہ یہ وقت اس بات کا دوبارہ جائزہ لینے کا ہے کہ ’’ہم فلسطین کے مسئلے پر بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کا کس طرح دفاع کر سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی حمایت میں پیش کی گئی قراردادوں کا ذکر کیا جن کا راستہ امریکہ نے طویل عرصہ سے یہ کہہ کر روک رکھا ہے کہ وہ طرفین کے درمیان براہِ راست سفارت کاری کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ ان قراردادوں کے خلاف ویٹو جاری رکھے گا تو انہوں نے محتاط جواب دیا۔

’’یہ ایک چیلنج ہے۔ اگر حقیقی امن کے عمل کا کوئی امکان نہ ہو، اگر کسی کو یقین نہ ہو کہ امن کا کوئی عمل موجود ہے، تو پھر ان لوگوں سے بحث کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو نئی آبادیوں کی تعمیر کے بارے میں خدشات رکھتے ہیں، جنہیں موجودہ صورتحال پر تشویش ہے۔ میرے لیے انہیں یہ کہنا زیادہ مشکل ہو گا کہ ’صبر کریں، انتظار کریں، کیونکہ یہاں امن کا ایک عمل چل رہا ہے۔‘‘

اوباما نے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلی سیاست ’’صرف خوف پر مبنی ہے۔‘‘

’’میرا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو ایسے انسان ہیں جو سلامتی کے بارے میں سب سے پہلے سوچنے پر مائل ہیں، یہ سوچنے پر کہ امن ایک سادہ لوحی پر مبنی خیال ہے، اور اپنے عرب ساتھیوں کے سب سے برے ممکنات کے بارے میں سوچنے پر مائل ہیں، نہ کہ سب سے بہترین ممکنات کے بارے میں۔‘‘

نیتن یاہو کے دفتر نے اوباما کے انٹرویو پر فوراً کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

XS
SM
MD
LG