رسائی کے لنکس

بشار کی ایران نواز حکومت کا خاتمہ؛ اسرائیل کو شام سے بدستور خطرات لاحق


  • باغیوں کے معتدل بیانات کے باوجود شام سے خطرات موجود ہیں: اسرائیلی وزیرِ دفاع
  • بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اسرائیل شام کی سرحد کے ساتھ اس فوجی علاقے میں داخل ہو گیا تھا۔
  • اسرائیل کی فوج گولان کے پہاڑی علاقے میں شام کے ساتھ بفرزون پر قابض ہو چکی ہے۔
  • جنگ زدہ حالات، کئی برس کے تنازع اور لڑائی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ شام کو نئے تنازع کی جانب دھکیلا جائے: ہیئت تحریر الشام

ویب ڈیسک — اسرائیلی وزیرِ دفاع یسرائیل کٹز نے کہا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے والے باغیوں کے معتدل بیانات کے باوجود اسرائیل کو شام سے خطرات موجود ہیں۔

ان کا یہ بیان اتوار کو ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب شام میں اسرائیلی فوج کارروائیوں میں مصروف ہے۔

یسرائیل کٹز نے ملک کے دفاعی بجٹ کا جائزہ لینے والے حکام کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ باغیوں کی جانب سے معتدل تصویر پیش کرنے کے باوجود حالیہ پیش رفت کے بعد اسرائیل کو شام سے لاحق فوری خطرات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کی شدت بڑھ گئی ہے۔

شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی تنظیم ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے سربراہ احمد الشرع نے، جن کو ابو محمد الجولانی کے نام سے جانا جاتا ہے، دو دن قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل شام پر حملوں کے لیے جھوٹے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مزید کسی تنازع میں شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ شام کی تعمیرِ نو کے خواہاں ہیں۔

شام میں آٹھ دن قبل بشار الاسد کے دو دہائیوں سے قائم اقتدار کا خاتمہ اس وقت ہوا تھا جب ہیئت تحریر الشام کے جنگجو دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئے تھے۔

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اسرائیل شام کی سرحد کے ساتھ اس غیر فوجی علاقے میں داخل ہو گیا تھا جو 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں قائم کیا گیا تھا۔

اسرائیل کی فوج شام میں موجود جبلِ الشیخ (ماؤنٹ ہرمن) کے اس حصے تک پہنچ چکی ہے جہاں سے دمشق پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔

باغیوں کے ہاتھوں حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی فوج کے پسپا ہونے پر جبلِ الشیخ پر قائم شامی چوکی بھی اسرائیل کی قبضے میں جا چکی ہے۔

اسرائیل مسلسل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کا یہاں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جب کہ شام کی سر زمین پر حالیہ در اندازی کو وہ سرحدی تحفظ کے لیے ایک عارضی اقدام قرار دے رہا ہے۔

اسرائیل گزشتہ ایک ہفتے میں شام میں سینکڑوں مقامات پر بمباری کرکے اسلحے اور بارود کے ذخائر کو تباہ کر چکا ہے جب کہ عسکری املاک کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔

اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ ان اسلحے و بارود کے ذخائر اور عسکری تنصیبات کو اس لیے تباہ کر رہا ہے تاکہ یہ شام کی حکومت کا خاتمہ کرنے والی باغی عسکری تنظیموں کے ہاتھ نہ لگیں کیوں کہ ان میں سے بعض تنظیمیں القاعدہ اور داعش جیسے شدت پسند گروہوں سے منسلک رہی ہیں۔

اسرائیل کی فوج گولان کے پہاڑی علاقے شام کے ساتھ بفرزون پر بھی قابض ہو چکی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن سمیت متعدد عرب ممالک نے اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

شام میں باغیوں کے حامی ایک ٹی وی چینل’سیریا ٹی وی‘ کو انٹرویو میں احمد الشرع نے کہا ہے کہ جنگ زدہ حالات، کئی برس کے تنازع اور لڑائی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ شام کو نئے تصادم کی جانب دھکیلا جائے۔

ان کے بقول اس وقت ترجیح تعمیرِ نو اور استحکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام کا کسی بھی تنازع میں الجھنا مزید تباہی کا سبب بنے گا۔

احمد الشرع کا مزید کہنا تھا کہ سفارتی حل سیکیورٹی اور استحکام کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔

ان کے بقول وہ بلا جواز عسکری مہم جوئی نہیں چاہتے۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)

XS
SM
MD
LG