اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کی قرارداد منظور ہونے پر برہم اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے سخت بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعہ کو قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا تھا اور اسی غیر حاضری پر بات کرنے کے لیے اتوار کو نیتن یاہو نے امریکہ کے سفیر ڈینیل شاپیرو کو طلب کیا۔
تاہم اس ملاقات کے بارے میں نہ ہی امریکی محکمہ خارجہ اور نہ ہی نیتن یاہو کے دفتر سے کوئی تفصیل جاری کی گئی۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ان تمام 14 ملکوں کے سفیروں کو طلب کیا تھا جنہوں نے اقوام متحدہ کی اس رائے شماری میں حصہ لیا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق متعدد سفیروں نے اس طلبی کا جواب نہیں دیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے اتوار کے روز اپنی کابینہ کے اجلاس کو بتایا کہ ''کئی دہائیوں سے'' حکومتِ اسرائیل اور امریکی انتظامیہ اس بات سے اتفاق کرتے آئے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی تعمیر کا معاملہ ایسا نہیں جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سطح پر حل کیا جا سکے۔
نیتن یاہو نے متنبہ کیا کہ جمعہ کی قرارداد ان کے بقول صدر براک اوباما کی طرف سے اپنا منصب چھوڑنے سے قبل مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی نافذ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
نیتن یاہو نے کابینہ سے کہا ہے کہ اُنھوں نے ''ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے امریکی احباب'' سے گفتگو کی ہے، جو ''سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کتنی ناعاقبت اندیشانہ اور تباہ کُن تھی''۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اُن دوستوں اور ''نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں جو آئندہ ماہ عہدہ سنبھالیں گے''۔ منتخب امریکی صدر 20 جنوری کو عہدہ صدارت پر فائز ہوں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اُنھوں نے حالیہ دِنوں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو بتایا تھا کہ ''دوست، دوستوں کو سلامتی کونسل تک نہیں لے جایا کرتے''۔
اقوام متحدہ کی مالی امداد کا جائزہ
سلامتی کونسل کی رائے شماری پر اظہارِ برہمی کے طور پر، نیتن یاہو نے اپنی حکومت کو احکامات جاری کیے ہیں کہ اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کو رقوم کی فراہمی بند کی جائے۔
ہفتے کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے کلمات میں، وزیر اعظم نے کہا کہ اُن کے موجودہ حکم نامے کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے اِن شناخت نا کردہ اداروں کو تقریباً 80 لاکھ ڈالر کے فنڈ جاری نہیں ہوں گے اور بتایا کہ ''مزید اقدام کیے جائیں گے''۔ تاہم، اُنھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی وزارتِ خارجہ سے کہا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر عالمی ادارے کے ساتھ اسرائیل کے روابط کا تفصیلی جائزہ لے، جس میں تمام مالی امور اور اسرائیلی سر زمین پر اقوام متحدہ کے نمائندوں کی تعیناتی کا معاملہ شامل ہے۔
نیتن یاہو نے قرارداد پر امریکی عدم ووٹنگ کو ''شرم ناک'' قرار دیا؛ اور کہا کہ اُن کی حکومت اس کی شقوں کی پرواہ نہیں کرے گی۔ اُنھوں نے نیوزیلینڈ اور سینگال سے اسرائیلی سفیر واپس بلانے کا اعلان کیا، جو دونوں ملک قرارداد پیش کرنے والے چار ملکوں میں شامل تھے، اور مغربی افریقی ملک کو اسرائیلی امداد کے منصوبے معطل کرنے کا اعلان کیا۔
امریکہ پر تنقید
امریکی حکومت کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، اُنھوں نے امریکی صدر براک اوباما پر اسرائیل کے ساتھ طویل مدتی دوستی کے عزم سے پھر جانے کا الزام لگایا۔
بقول اُن کے ''(اوباما کا) فیصلہ نہ صرف امن قائم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا، بلکہ یہ امن کی راہ میں حائل ہے''۔
ادھر، فلسطینی اور خطے بھر کے عرب ملکوں نے رائے شماری کو سراہا ہے۔
فلسطین کے سابق امن مذاکرات کار، صائب عریقات نے ووٹنگ کو ''ایک واضح اور متفقہ پیغام'' قرار دیا کہ نیتن یاہو اور اُن کی پالیسیاں اسرائیل یا خطے کے دیگر مقامات پر امن کے قیام یا سلامتی کو تقویت نہیں دیں گی۔