رسائی کے لنکس

فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ منسوخ


فائل
فائل

’فلسطینی قیدیوں کے نئے جتھے کی رہائی کی راہ میں چیلنجز حائل ہوگئے ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ امن عمل اب بھی جاری رہ سکتا ہے‘: وائٹ ہاؤس ترجمان

اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم کیے جانے کے لیے فلسطینی قیادت کی مزید تگ و دو کے بعد، اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کے چوتھے گروپ کی رہائی کے معاملے کو منسوخ کردیا ہے۔

اسرائیلی وزیر انصاف، زِپی لیونی نے کہا ہے کہ فلسطینی اقدام رہائی کے لیے لازم شرائط کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، جس کے لیے ضروری تھا کہ فلسطینی کسی قسم کے یکطرفہ اقدام سے احتراز کریں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے نئے جتھے کی رہائی کی راہ میں ’چیلنجز حائل ہوگئے ہیں‘، لیکن مشرق وسطیٰ امن عمل اب بھی جاری رہ سکتا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ، اوگڈر لبرمین کے دفتر نے بتایا ہے کہ بحران پر بات چیت کے لیے وہ جمعے کو امریکہ جائیں گے، جہاں اگلے ہفتے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کریں گے۔

اس سے قبل، کیری نے کہا تھا کہ مذاکرات کو ایک ’مشکل لمحہ‘ درپیش ہے، اور یہ کہ اس عمل کو زندہ رکھنے کا دارومدار اب اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں پر ہے۔

جمعرات کو الجزائر کے دورے کے دوران، کیری نے کہا کہ باہر بیٹھے ہوئے لوگ زور اور تلقین کر سکتے ہیں، تاہم دونوں فریق کو ہی’ بنیادی فیصلے اور سمجھوتے‘ خود کرنے ہیں۔

بقول اُن کے، رہنماؤں کو قائدانہ صلاحیت دکھانی ہوگی، اور مناسب لمحہ سامنے آنے پر اُسے ضائع نہیں جانا چاہیئے۔

گذشتہ چند ہفتوں سے، کیری إِن مذاکرات کو جاری رکھنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں، ایسے میں جب امن عمل کی نو ماہ کی میعاد پوری ہونے کو ہے، جس پر گذشتہ برس اسرائیل اور فلسطین دونوں نے اتفاق کیا تھا۔

منگل کے روز اسرائیل نے مشرقی یروشلم کی ایک بستی میں 700سے زیادہ گھروں کی تعمیر کے لیے ٹھیکوں کے آکشن دینے کے مطالبے کو دہرایا۔

اُسی روز، فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک درجن سے زیادہ بین الاقوامی سمجھوتوں پر دستخط کیے، جس اقدام کا مقصد مذاکراتی عمل سے باہر ریاست کے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرنا تھا۔

فلسطینی وزیر خارجہ، ریاض المالکی نے کہا ہے کہ اس اقدام کے باعث امریکی تعزیرات لگنے کا خطرہ نہیں ہے، کیونکہ یہ اُن اداروں اور معاہدوں تک محدود ہے جن کا تعلق سماجی اور انسانی حقوق سے ہے، اور یہ اقوام متحدہ کے اداروں کی مکمل رکنیت اختیار کرنے سے متعلق کوشش نہیں ہے۔

مسٹر عباس نےفوجداری مقدمات کی بین الاقوامی عدالت میں شمولیت کی کوشش نہیں کی، جس اقدام سے اسرائیل خوف زدہ ہے، کیونکہ فلسطینی مغربی کنارے میں اسرائیل کی موجودگی کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG