رسائی کے لنکس

مدرسوں پر حملے، فرقہ واریت کی انتہا ہے: ماہرین


کراچی میں دو دن کے مختصر وقفے کے بعد پیر کی صبح ہونے والا دھماکا اس بات کی واضح مثال ہے۔ اس بار یہ دھماکا دستی بم کا تھا جو فرنٹئیر کالونی، اورنگی ٹاوٴن کے ایک مدرسے جامعہ اسلامیہ طاہریہ میں پھٹا

کراچی میں مساجد اور امام بارگاہوں کے ساتھ ساتھ مدارس پر حملوں کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی رائے میں مدارس پر حملوں کی وجہ’ فرقہ واریت کی انتہا‘ ہے۔

ماہرین کے مطابق ڈاکٹروں، سرکاری اداروں کے سربراہان، معلمین اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور خاص کر علما کو نشانہ بنانے کے بعد بعض فرقہ پرستوں نے ایک دوسرے کے مدارس اور مذہبی اجتماعات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، جو معاشرے میں عدم برداشت کے ساتھ ساتھ انتہائی تشویشناک بھی ہے۔ ایسی قوموں کے پاس آنے والی اپنی ہی نسلوں کو وراثت دینے کے لئے کچھ اور نہیں ہوتا۔

کراچی میں دو دن کے مختصر وقفے کے بعد پیر کی صبح ہونے والا دھماکا اس بات کی واضح مثال ہے۔ اس بار یہ دھماکا دستی بم کا تھا جو فرنٹئیر کالونی، اورنگی ٹاوٴن کے ایک مدرسے جامیہ اسلامیہ طاہریہ میں پھٹا۔ ابتدائی طور پر خبر آئی تھی کہ نامعلوم موٹر سائیکل سوار دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے جس کے نتیجے میں تین طالب علم ہلاک اور چھ زخمی ہوگئے۔

بعد میں مقامی میڈیا میں یہ خبریں بھی آئیں کہ بم مدرسے کے اندر ہی تھا۔ ان خبروں کی ابھی تصدیق بھی پوری طرح نہیں ہوئی تھی کہ شام کے اوقات میں یہ سنا گیا کہ دستی بم قریبی نالے سے طالب علم کھلونا سمجھ کر اٹھا لائے تھے جو دھماکے سے پھٹ گیا۔

پاکستان میں مدرسے کو نشانہ بنائے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ مساجد، امام بارگاہیں اور مدرسوں میں دھماکوں کے پہلے بھی انگنت واقعات ہوچکے ہیں۔ جمعہ کو بھی گذری میں واقعہ ایک مسجد کے قریب دھماکا ہوا تھا، جبکہ 24تاریخ کو بھی کراچی میں دھماکے کی گونج سنی گئی تھی جس میں ایک پولیس افسر اپنے چار ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا تھا۔

ہر علاقے کی ہر گلی میں ایک مدرسہ۔۔!
کراچی میں جس علاقے میں بھی چلے جائیے ہر گلی میں ایک نہ ایک دینی مدرسہ مل ہی جائے گا۔ ان مدرسوں کے قیام کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تاہم، طالبان کے ’وجود‘ میں آنے کے بعد ان مدرسوں کو شکوک و شہبات کی نظروں سے دیکھا گیا کیوں کہ طالبان، پاکستان اور افغانستان کے انہی جیسے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے تھے۔

آزاد خیال مبصرین کا خیال ہے کہ آج بھی ان مدرسوں پر چندہ اکھٹا کرنے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ بحث الگ ہے کہ ان الزامات میں کس حد تک سچائی ہے یا یہ محض افسانے ہیں ۔۔۔

تاہم، سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان مدرسوں کو ہر دور میں بہت سی دینی و مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ پھر چونکہ پاکستان میں مذہب اور سیاست کو الگ الگ نہیں برتا جاتا۔ اس لئے مقامی افراد، محلے والوں اور عام لوگوں تک کے دلوں میں مدارس کو نہایت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لہذا، نہ تو ان کے خلاف کوئی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے بند کرنے کا کوئی سوچ بھی سکتا ہے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ انسانوں کی طرح مدارس بھی فرقوں کے اعتبار سے پہچانے جاتے ہیں۔ کون سا مدرسہ کس فرقے کا ہے اور وہاں کے طلباء کے عقائد کس نوعیت کے ہیں یہ سب کو پتا ہے۔ اسی لئے، جب فرقہ پرستی کو ہوا ملتی ہے تو ان مدارس کے ماننے والے دوسرے مدارس والوں کے خلاف ’آواز‘ اٹھاتے ہیں اور کبھی کبھی یہی ’آواز‘ ایک دوسرے کے لئے اس حد تک ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کہ نتیجہ مدارس پر حملوں کی شکل میں نکلتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آج یہی صورتحال ہے۔ ایسے میں علماء کو افہام و تفہیم کی فضاء برقرار رکھنے کے لئے مزید آگے آنا ہوگا۔ ورنہ، مستقبل کا اندھیرا مزید کتنا بھیانک ہوگا اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
XS
SM
MD
LG