دو ہفتوں کی خاموشی کے بعد، عراقی فوجیں جنھیں امریکی قیادت میں کی جانے والی فضائی کارروائی کی حمایت حاصل ہے، جمعرات کے روز موصل کے مشرقی علاقے پر کئی اطراف سے حملہ کیا، جس کارروائی کا مقصد داعش کے زیر کنٹرول اس شہر پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنا ہے۔
خاص تربیت یافتہ فوجیں کرمہ اور قدس کے مضافات میں داخل ہوئیں، ایسے میں جب بَری افواج اور وفاقی پولیس نے قریبی انتصار، سلام اور سمور کے مضافات کی جانب پیش قدمی کی۔ ایسے میں جب گلیوں سےدھماکوں اور مشین گن فائر کی گھن گرج سنائی دی، شہر کے اوپر دھویں کے سیاہ بادل اٹھنے لگے۔
شدت پسندوں کی سخت مزاحمت کے پیش نظر، اپنے گھروں میں پھنسے ہوئی شہری آبادی اور ساتھ ہی خراب موسم کے نتیجے میں پیش قدمی تھمی رہی، ایسے میں جب دو ماہ سے زیادہ عرصہ قبل عراق کے اس دوسرے بڑے شہر پر قبضے کی حصول کی کارروائی کا آغاز ہوا تھا۔
موصل شدت پسند گروپ کا ملک کے دیہی علاقے کے اندر ایک گڑھ خیال کیا جاتا ہے۔ سنہ 2003 میں امریکی قیادت میں لڑی گئی جنگ کے بعد یہ عراقی فوج کی سب سے بڑی جنگی کارروائی ہے۔
منگل کو ایسو سی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، مشرقی موصل میں خصوصی افواج کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل عبدالوہاب السعدی نے بتایا ہے کہ نئی کمک موصول ہونے کے بعد فوج کی نفری میں اضافہ ہوگیا ہے، جب کہ فاصلہ دریائے دجلہ سے تین کلومیٹر (دو میل) سے کم رہ گیا ہے۔ دجلہ، شہر کو دو حصوں میں بانٹتا ہے۔
اس ہفتے امریکی قیادت والے فضائی حملوں میں دریا کے اوپر ایک اور پُل کو تباہ کیا گیا۔