عراقی فورسز رمادی پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد منگل کو اسے مزاحمت سے پاک کرنے پر کام کر رہی ہیں۔
مئی میں رمادی پر داعش کا قبضہ وزیر اعظم حید العبادی کی حکومت اور فوج کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔
مگر پیر کو رمادی میں کامیابیوں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ٹیلی وژن پر کہا کہ 2016 وہ سال ہو گا جب داعش کو عراق سے نکال باہر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا دوسرا شہر اب فوج کا ہدف ہے۔
’’ہم موصل کا قبضہ چھڑانے آ رہے ہیں اور یہ داعش کے لیے آخری مہلک دھچکا ہو گا۔‘‘
داعش 2014 سے موصل پر قابض ہے جہاں اس گروہ نے عراق کے وسیع شمالی اور مغربی علاقوں اور مشرقی شام پر قبضہ کر رکھا ہے۔
پیر کو پرجوش عراقی فوجیوں نے رمادی کے وسط میں سرکاری ہیڈ کواٹرز کی عمارت پر یہ کہتے ہوئے جھنڈا لہرایا کہ انہوں نے کہ اس اہم شہر کو داعش سے آزاد کرا لیا ہے۔
عراقی فوجیوں نے انبار صوبے کے دارالحکومت کی گلیوں میں مارچ کرتے اور خوشی سے اپنے ہتھیاروں کو لہرایا اور سات ماہ قبل رمادی کے داعش کے قبضے میں جانے کے بعد اس آزاد قرار دے دیا۔
عراقی حکام کا کہنا تھا کہ اگلا قدم کہیں کہیں موجود مزاحمت کو ختم کرنا اور رمادی شہر اور اس کے اطراف کو داعش کی چھوڑی ہوئی بارودی سرنگوں اور دیگر دھماکہ خیز آلات سے پاک کرنا ہے۔
دونوں جانب ہونے والے جانی نقصان کی ابھی کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئیں جبکہ اکثر شہریوں نے ایک اسپتال کے اندر پناہ لے رکھی ہے۔
امریکہ نے عراقی فورسز کی رمادی میں کامیابیوں کا خیر مقدم تو کیا مگر رمادی کو داعش سے آزاد قرار نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ’’عراقی سکیورٹی فورسز کے رمادی پر دوبارہ قبضے کے لیے جنگ ان کی جرات اور حوصلے اور داعش کو اس کے محفوظ ٹھکانوں سے باہر نکالنے کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کا ثبوت ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی طرح وزیر دفاع ایش کارٹر نے بھی رمادی میں پیر کو ہونے والے واقعات کو صرف ’’پیش رفت‘‘ قرار دیا۔
داعش نے مئی میں رمادی پر قبضہ کر لیا تھا اور شہر کو اس سے واپس حاصل عراقی فورسز کی توجہ کا مرکز تھا۔
کئی ماہ تک تیاری کے بعد امریکہ کے قیادت میں قائم فضائی اتحاد کی مدد سے عراقی فورسز نے گزشتہ ہفتے شہر کے مرکزی حصے میں پیش قدمی کی مربوط کوشش کی تھی تاکہ اسے داعش کے جنگجوؤں سے چھڑایا جا سکے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتے کے دوران داعش کے ٹھکانوں پر کم از کم 29 فضائی حملے کیے۔
رمادی شہر کے مرکز اور قریبی علاقوں کی وڈیو میں وسیع پیمانے پر پھیلی تباہی کو دیکھا جا سکتا ہے۔
فوج کے ایک کمانڈر نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ داعش کے شدت پسندوں نے کئی عمارتوں میں دھماکہ خیز آلات نصب کیے ہیں اور ان کے فوجیوں پر کار بموں سے حملہ کرنے کی کوشش کی۔
جنرل عبدل غنی الاسدی نے کہا کہ ان کے آدمیوں نے قربانیاں دی ہیں اور بہت سو نے داعش کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں گنوائیں۔