واشنگٹن —
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح بغداد میں دو کار بم دھماکے ہوئے، جن کا ہدف گاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگ تھے، جب کہ افواج اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں واقع ہوئیں، جِن میں کم از کم 18 شہری ہلاک ہوئے۔
ہلاکت خیز ترین حملہ وسطی بغداد کے بسوں کے ایک مصروف اڈے پر ہوا، جب دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک موٹر گاڑی اِس سے ٹکرائی۔ اِس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 16 زخمی ہوئے۔ روزانہ ہزاروں لوگ اِس بس اڈے کا استعمال کرتے ہیں، یا پھر اِس علاقے سے گزرتے ہیں۔
بغداد کے ایک دوسرے ضلعے میں ایک کار بم دھماکہ ہوا، جس میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ سورج غروب ہونے کے فوری بعد فوج کے بھاری توبخانے سے شہر کے مغربی مضافات میں واقع ایک سنی آبادی والے گاؤں پر گولہ باری کی گئی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اتوار ہی کے روز، وزیر اعظم نوری المالکی نے وعدہ کیا تھا کہ صوبہٴانبار کو مزید نقصان سے بچانے کی خاطر فلوجہ پر کوئی مزید فوجی حملہ نہیں کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا تھا کہ سنی قبائل سے تعلق رکھنے والوں کو مزید وقت دیا جائے گا، تاکہ القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں کو نکال باہر کرنے کے لیے درکار زیادہ وقت دیا جائے گا۔
مسٹر مالکی نے رائٹرز خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اُن کی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ کسی خون خرابے کے بغیر شدت پسندوں کی موجودگی کا خاتمہ لایا جائے، کیونکہ فلوجہ کے لوگوں نے کافی دکھ جھیلے ہیں۔ اُن کا اشارہ 2004ء میں باغیوں کو نکالنے کے لیے امریکی فوج کے تباہ کُن حملوں کی طرف تھا۔
انبار کی صورتِ حال پر امریکی تشویش کے اظہار کے طور پر، مسٹر مالکی اور دیگر اعلیٰ عراقی سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی خاطر، امریکہ کے ایک سینئر اہل کار نے عراق کا سفر کیا۔ ڈپٹی معاون وزیر برائے مشرقی امور، بریٹ مک گرک نے اتوار کو اپنا دورہ مکمل کیا۔
ایک بیان میں، بغداد میں امریکی سفارت خانے نے بتایا کہ مک گرک نے اِس بات پر زور دیا کہ امریکہ ’حکومت عراق کو درکار تمام ضروری اور مناسب مدد فراہم کرے ‘۔
اس سے قبل آنے والی خبروں کے مطابق، عراق کے دارالحکومت میں اتوار کو ایک کار بم دھماکے میں کم ازکم نو افراد ہلاک ہوگئے۔ حکام کے مطابق بغداد میں علوی الحلہ بس ٹرمینل پر ہونے والے اس دھماکے میں کم ازکم 16 افراد زخمی بھی ہوئے۔
عراق میں گزشتہ برس اپریل سے ایک بار پھر پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ رواں سال کے اوائل ہی سے دہشت گردانہ کارروائی اور خصوصاً فرقہ وارانہ تشدد میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔
تین روز قبل بغداد میں فوج کے ایک بھرتی مرکز پر ہونے والے خود کش بم حملے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بم حملے کا نشانہ بننے والے یہ لوگ وزیراعظم نوری المالکی کی درخواست پر فوج میں رضاکارانہ طور پر بھرتی ہونے کے لیے جمع تھے۔
وزیراعظم نے فلوجہ پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں سے لڑائی کے لیے مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کا کہا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال عراق میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہلاکت خیز ترین حملہ وسطی بغداد کے بسوں کے ایک مصروف اڈے پر ہوا، جب دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک موٹر گاڑی اِس سے ٹکرائی۔ اِس واقعے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 16 زخمی ہوئے۔ روزانہ ہزاروں لوگ اِس بس اڈے کا استعمال کرتے ہیں، یا پھر اِس علاقے سے گزرتے ہیں۔
بغداد کے ایک دوسرے ضلعے میں ایک کار بم دھماکہ ہوا، جس میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے، جب کہ سورج غروب ہونے کے فوری بعد فوج کے بھاری توبخانے سے شہر کے مغربی مضافات میں واقع ایک سنی آبادی والے گاؤں پر گولہ باری کی گئی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اتوار ہی کے روز، وزیر اعظم نوری المالکی نے وعدہ کیا تھا کہ صوبہٴانبار کو مزید نقصان سے بچانے کی خاطر فلوجہ پر کوئی مزید فوجی حملہ نہیں کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا تھا کہ سنی قبائل سے تعلق رکھنے والوں کو مزید وقت دیا جائے گا، تاکہ القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں کو نکال باہر کرنے کے لیے درکار زیادہ وقت دیا جائے گا۔
مسٹر مالکی نے رائٹرز خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اُن کی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ کسی خون خرابے کے بغیر شدت پسندوں کی موجودگی کا خاتمہ لایا جائے، کیونکہ فلوجہ کے لوگوں نے کافی دکھ جھیلے ہیں۔ اُن کا اشارہ 2004ء میں باغیوں کو نکالنے کے لیے امریکی فوج کے تباہ کُن حملوں کی طرف تھا۔
انبار کی صورتِ حال پر امریکی تشویش کے اظہار کے طور پر، مسٹر مالکی اور دیگر اعلیٰ عراقی سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی خاطر، امریکہ کے ایک سینئر اہل کار نے عراق کا سفر کیا۔ ڈپٹی معاون وزیر برائے مشرقی امور، بریٹ مک گرک نے اتوار کو اپنا دورہ مکمل کیا۔
ایک بیان میں، بغداد میں امریکی سفارت خانے نے بتایا کہ مک گرک نے اِس بات پر زور دیا کہ امریکہ ’حکومت عراق کو درکار تمام ضروری اور مناسب مدد فراہم کرے ‘۔
اس سے قبل آنے والی خبروں کے مطابق، عراق کے دارالحکومت میں اتوار کو ایک کار بم دھماکے میں کم ازکم نو افراد ہلاک ہوگئے۔ حکام کے مطابق بغداد میں علوی الحلہ بس ٹرمینل پر ہونے والے اس دھماکے میں کم ازکم 16 افراد زخمی بھی ہوئے۔
عراق میں گزشتہ برس اپریل سے ایک بار پھر پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ رواں سال کے اوائل ہی سے دہشت گردانہ کارروائی اور خصوصاً فرقہ وارانہ تشدد میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔
تین روز قبل بغداد میں فوج کے ایک بھرتی مرکز پر ہونے والے خود کش بم حملے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بم حملے کا نشانہ بننے والے یہ لوگ وزیراعظم نوری المالکی کی درخواست پر فوج میں رضاکارانہ طور پر بھرتی ہونے کے لیے جمع تھے۔
وزیراعظم نے فلوجہ پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں سے لڑائی کے لیے مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کا کہا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال عراق میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔