امریکی فوج کے اہل کاروں نے کہا ہے کہ فوجی اتحاد کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں عراق میں داعش کے شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اور اتحاد نے دشمن کو میدانِ جنگ سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
فضائی کارروائیوں کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل جان ہیسٹرمن نے جمعے کے روز بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب دولت اسلامیہ ملک میں کہیں بھی کسی پیش قدمی کے قابل ہے۔
بقول اُن کے، ’جب بھی وہ پیش قدمی کی کوشش کرتے ہیں، اور ہم اس حکمت عملی کو فتح قرار دے دیتے ہیں، جو غلط تاثر ہے‘۔
اُن کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب چند ہی روز قبل امریکی معاون وزیر دفاع، اینٹونی بِلنکن نے کہا تھا کہ داعش کے خلاف شروع کی گئی کارروائی میں ایک سال کے دوران 10000 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہیسٹرمن نے جمعے کے روز بتایا کہ فوجی کارروائی جنگجوؤں کو میدان جنگ سے’تیزی سے‘ بھاگنے پر مجبور کر رہی ہے، لیکن غیرملکی جنگجوؤں کی یلغار کو روکنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
امریکہ نے گذشتہ سال اگست میں داعش کے اہداف کے خلاف فضائی حملوں کی قیادت کا آغاز کیا تھا، ایسے میں جب کہ بَری فوجیں دولت اسلامیہ کی زمین ہتھیانے کے کوششوں کا قلع قمع کرنے کے لیے حربی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ایک ماہ بعد، اتحاد نے اپنی فضائی کارروائی ہمسایہ ملک، شام تک بڑھا دی تھی۔
روزانہ تقریباً 14 فضائی حملے کیے جاتے ہیں، جن کی مدد سے حکومت کی حامی افواج اس قابل ہوئیں ہیں کہ وہ کچھ علاقے داعش کے تسلط سے خالی کرا سکے۔ تاہم، شدت پسند اپنے فتوحات جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں گذشتہ ماہ عراق کے مغربی شہر، رمادی پر قبضہ کرنا شامل ہے۔