عراق کی فوج نے شمالی شہر تکریت کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے دولت اسلامیہ فی عراق ولشام کے سنی شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی ہے۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ زمینی کارروائی ہفتہ کو کو شروع ہوئی تھی اور اس دوران سنی عسکریت پسندوں اور عراقی فورسز کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
کارروائی میں عراقی ہیلی کاپٹر گن شپس کے ذریعے فضا سے بھی بمباری کی گئی جب کہ شہر کے جنوب سے ٹینکوں نے دھاوا بولا۔
تاحال اس میں ہلاکتوں سے متعلق مصدقہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں لیکن بعض اطلاعات کے مطابق 50 جنگجو اس کارروائی میں مارے جاچکے ہیں۔
بعض ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے حملے کو پسپا کردیا ہے۔
یہ کارروائی ایک ایسے وقت شروع ہوئی جب امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ عراق میں امریکی فوجی مشیروں کے تحفظ کے لیے مسلح ڈرون عراق کی فضائی حدود میں اڑائے جارہے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے رواں ماہ کے اوائل میں تین سو فوجی مشیر عراق بھیجنے کا اعلان کیا تھا جن میں سے تقریباً نصف سے زائد بغداد پہنچ چکے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد شدت پسندوں کے خلاف عراقی سکیورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانے میں مدد دینا اور ایک مشترکہ آپریشن سنٹر قائم کرنا ہے۔
انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ سیٹیلائیٹ سے حاصل کردہ تصاویر سے "ٹھوس اشارے" ملے ہیں کہ آئی ایس آئی ایل کے انتہا پسندوں نے تکریت شہر پر قبضے کے بعد یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتارا۔
تنظیم کے مطابق 11 سے 14 جون کے درمیان 160 سے 190 لوگوں کو دو مختلف جگہوں پر ہلاک کیا گیا۔
سنی شدت پسندوں نے رواں ماہ کے اوائل سے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سمیت مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور انھوں نے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دارالحکومت بغداد کی طرف پیش قدمی بھی شروع کر دی تھی۔