رسائی کے لنکس

ایرانی جنگی جہاز البرز بحیرہ احمر میں  داخل


ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس کی جاری کردہ اس تصویر میں ایرانی جنگی جہاز البرز کو کھلے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ 7 اپریل 2015، فوٹو اے اپی
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس کی جاری کردہ اس تصویر میں ایرانی جنگی جہاز البرز کو کھلے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ 7 اپریل 2015، فوٹو اے اپی

ایران کا جنگی بحری جہاز البرز ، بحیرہ احمر کے پانیوں میں داخل ہو گیا ہے۔ ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم نے پیر کی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اور تہران کی اتحادی فورسز کے خطے کی آبی گزرگاہوں پر سفر کرنے والے تجارتی بحری جہازوں پر حملوں میں اضافے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے ۔

تسنیم کی رپورٹ میں البرز کے مشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا لیکن یہ کہا گیا ہے کہ ایرانی بحری جنگی جہاز 2009 سے جہاز رانی کے راستوں کو محفوظ بنانے ، بحری قزاقی کی روک تھام اور دیگر کاموں کی انجام دہی کے لیے کھلے پانیوں میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

یمن کا حوثی عسکری گروپ، جسے ایران کی سرپرستی حاصل ہے، اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں، فلسطینی گروپ حماس سے اپنی حمایت کے اظہار کے لیے نومبر سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔

ان حملوں سے بچنے کے لیے بہت سی بحری جہاز راں کمپنیوں نے نہر سوئز سے گزرنے کی بجائے افریقہ کے کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد طویل اور زیادہ مہنگے راستے کا رخ کر لیا ہے۔

ایک تجارتی بحری جہاز نہر سوئز سے گزر رہا ہے۔ 15 فروری 2022
ایک تجارتی بحری جہاز نہر سوئز سے گزر رہا ہے۔ 15 فروری 2022

تقریباً 12 فی صد عالمی تجارت نہر سوئزکے راستے سے ہوتی ہے۔

تسنیم کی رپورٹ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ ایرانی جنگی جہاز البرز آبنائے باب المندب کے راستے بحیرہ احمر میں داخل ہوا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسا کب ہوا۔ تاہم سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ ہفتے کی رات بحیرہ احمر پہنچا تھا۔

ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق ایرانی بحریہ کے 34 ویں بحری بیڑے میں شامل تباہ کن جنگی جہاز کلاس الوند اور امدادی بحری جہاز بوشہر ، 2015 سے خلیج عدن، بحر ہند کے شمالی حصے اور آبنائے باب المندب میں گشت کر رہے ہیں۔

امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے نے کہا ہے کہ وہ ایرانی بحریہ کے بارے میں بات نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایرانی جہاز کی نقل و حرکت کی غیر مصدقہ اطلاعات پر تبصرہ کر سکتا ہے ۔

حوثی عسکری گروپ نے ہفتے اور اتوار کو مارسک (MAERSKb.CO) کے کنٹینر لے جانے والے بحری جہاز پر میزائلوں اور چھوٹی کشتیوں سے حملہ کیا تھاجس کے بعد کمپنی نے 48 گھنٹوں کے لیے بحیرہ احمر کے راستے اپنے آبی سفر میں وقفہ کر دیاہے۔

ایرانی ذرائع ابلاغ نے 2 دسمبر کو ایرانی بحریہ کے سربراہ شہرام ایرانی کے حوالے سے کہا ہے کہ البرز بحیرہ احمر میں اپنے مشن انجام دے رہا ہے۔

بحیرۂ احمر میں امریکہ کی قیادت میں کثیرقومی ٹاسک فورس

امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں کی سیکیورٹی کے لیے امریکہ کی قیادت میں قائم اس ٹاسک فورس میں 20 سے زیادہ ممالک شامل ہیں۔ لیکن اب تک 12 ملکوں کے نام سامنے آ ئے ہیں۔

امریکہ کے دو یورپی اتحادیوں اٹلی اور اسپین کے حکام نے عندیہ دیا ہے کہ وہ یا تو نیٹو اور یورپین اتحاد کے تحت یا اپنے طور پر اس اہم آبی گزرگاہ میں اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے۔

برطانیہ، یونان اور دیگر نے امریکی قیادت میں بننے والی ٹاسک فورس میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ٹاسک فورس میں شامل کچھ ممالک ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اٹلی کی وزارتِ دفاع کے مطابق وہ بحیرۂ احمر میں ایک جنگی جہاز بھیجے گی البتہ یہ اقدام امریکی ٹاسک فورس کے تحت نہیں ہو گا۔

فرانس نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بحیرۂ احمر میں آزادانہ نقل و حمل یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ لیکن فرانس خود اس کی قیادت کرے گا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس مشن میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ایران کے وزیر دفاع محمد رضا آشتیانی نے 14 دسمبر کو بحیرہ احمر کے حوالے سے کہا تھا کہ جہاں ہمارا غلبہ ہو، اس خطے میں کوئی بھی اپنے قدم نہیں رکھ سکتا۔

(اس خبر کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG