امریکہ کی سینیٹ کے قائد ایوان مچ میکونل نے کہا ہے کہ ویانا میں چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والی بات چیت میں طے پانے والے کسی بھی جوہری معاہدے سے ایران کو ’’جوہری طاقت بننے کے قریب ریاست‘‘ کے طور پر چھوڑ دیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی معاہدے کی کانگریس سے منظوری حاصل کرنا مشکل ہو گی، جبکہ ایوانِ زیریں کے اسپیکر جان بینر کا اصرار ہے کہ کوئی معاہدہ نہ ہونا ایک ’سرکش ریاست‘ کو ’’قانونی جواز فراہم کرنے والے‘‘ ایک برے معاہدے سے بہتر ہے۔
میکونل نے اتوار کو ٹیلی وژن پر کہا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ کی ان مذاکرات میں حکمت عملی یہ ہے کہ جو معاہدہ ایران چاہتا ہے اسی کو حتمی شکل دے دی جائے۔ میکونل نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی تجاویز موجود تھیں۔
’’دنیا کی سب سے بری حکومتوں میں سے ایک کو اپنی جوہری صلاحیت محدود کرنے پر قائل کرنے کی کوشش میں کئی برس صرف کرنے کی بجائے ہم اس کے خلاف پابندیاں مزید سخت کر سکتے تھے۔ یہ پابندیاں ہی تھیں جو اسے مذاکرات کی میز پر لائیں۔ مگر انتظامیہ نے مذاکرات کے راستے پر جانا مناسب سمجھا اور ہم یہ بات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ کیا ایران اپنی ماضی کی تحقیق اور ترقی کے بارے میں بتائے گا، اسں نے ماضی میں اس شعبے میں کیا کچھ کیا، کیا اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے، اور کیا ہم اس کی فوجی تنصیبات کا معائنہ کر سکیں گے؟‘‘
میکونل نے کہا کہ ایران کی بیلسٹک میزائلوں کی صلاحیت اور اس کی شام، لبنان، غزہ اور یمن میں سرگرمیاں بھی قانون سازوں کے پیش نظر ہیں۔
مئی میں کانگریس نے ’ایران نیوکلیئر ڈیل ریویو ایکٹ‘ نامی ایک قانون منظور کیا تھا جس میں قانون سازوں کو جوہری معاہدے کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
سینیٹ نے یہ قانون ایک کے مقابلے میں 98 ووٹوں سے منظور کیا جبکہ ایوان نمائندگان میں اسے 25 کے مقابلے میں 400 ووٹ حاصل ہوئے۔ کانگریس میں دو تہائی اکثریتی رائے کو امریکی صدر ویٹو نہیں کر سکتا چنانچہ صدر اوباما نے اس بل پر دستخط کر دیے تھے۔
اس قانون کے تحت قانون سازوں کو اس معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے 60 دن کی مہلت دی گئی ہے اور اس مدت کے دوران صدر ایران پر عائد پابندیاں نہیں ہٹا سکتا۔
صدر کانگریس کے فیصلے پر دستخط کر سکتا ہے یا اسے ویٹو کر سکتا ہے۔ مگر صدر کے ویٹو کو منسوخ کرنے کے لیے کانگریس کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی۔
اتوار کو ایک علیحدہ ٹیلی وژن پروگرام میں ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر نے کہا کہ ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہونا ایک برا معاہدہ ہونے سے بہتر ہے۔
بینر نے کہا کہ ’’ویانا میں ہونے والے مذاکرات سے آنے والی اطلاعات کے مطابق اوباما انتظامیہ نے اپنے لیے جو رہنما اصول متعین کیے تھے وہ ان میں سے بیشتر سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اور میں کوئی برا معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘
بینر نے کہا کہ ایران پر پابندیاں اس وقت تک جاری رہنی چاہیئں جب تک وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں اور بحیثیت ریاست دنیا میں دہشت گردی کی سب سے زیادہ معاونت کرنا ترک نہیں کر دیتا۔ ان کے بقول ایران کے ساتھ تعطل ایک ’سرکش ریاست‘ کو قانونی جواز فراہم کرنے سے بہتر ہے۔
دیگر قانون سازوں کی رائے کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کی بجائے اسے کنٹرول کرنے پر مذاکرات کیے جا رہے ہیں جو ان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ان کی رائے کے مطابق معاہدے پر پہنچنے کے لیے امریکہ نے ایران کو بہت سی رعائتیں دی ہیں جو امریکہ اور باقی دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔