ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انٹرپول سے ان کی گرفتاری میں مدد کی درخواست کی ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'اِرنا' نے ایک مقامی پراسیکیوٹر کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملے کے الزام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ متعدد دیگر افراد کے وارنٹ بھی جاری کیے ہیں۔
اگرچہ ان وارنٹس سے صدر ٹرمپ کی گرفتاری کا کوئی خطرہ نہیں لیکن اس اقدام سے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں مزید کشیدگی آ سکتی ہے۔
تہران کے ایک مقامی پراسیکیوٹر علی القاسمیھر نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور دیگر 30 افراد کو ایران نے رواں سال جنوری کی تین تاریخ کو بغداد میں جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ ان افراد کو "قتل اور دہشت گردی" کے الزامات کا سامنا کرنا ہو گا۔
القاسمیھر نے صدر ٹرمپ کے علاوہ کسی اور شخص کا نام نہیں لیا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایران صدر ٹرمپ کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔
القاسمیھر نے مزید کہا ہے کہ ایران نے انٹرپول سے صدر ٹرمپ کو گرفتار کرنے کے لیے 'ریڈ نوٹس' جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ البتہ اس معاملے پر انٹرپول کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔
عام طور پر انٹرپول کو اس طرح کی درخواست موصول ہونے کے بعد انٹرپول کی کمیٹی میں اس بات کا فیصلہ ہوتا ہے کہ اس کے ارکان ملکوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا جائے یا نہیں۔ البتہ اس بات کا امکان کم ہے کہ انٹرپول ایران کی درخواست منظور کرتے ہوئے کوئی نوٹس جاری کرے گا کیوں کہ انٹرپول کے قوائد میں درج ہے کہ وہ سیاسی طرز کے معاملات میں نوٹس جاری نہیں کر سکتا۔
خیال رہے کہ قاسیم سلیمانی ایران میں پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے جنہیں رواں سال امریکہ نے عراق میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔