رسائی کے لنکس

بھارتی زیرانتظام کشمیر میں بدھ کو ووٹ دینے والے 50 فیصد سےکچھ زیادہ تھے: عہدہ دار


سری نگر کے ایک مضافات میں ایک بھارتی پیرا ملٹری فوجی ایک پولنگ بوتھ کا پہرا دے رہا ہے جہاں لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے کھڑے ہیں۔ فوٹو 25 ستمبر 2024
سری نگر کے ایک مضافات میں ایک بھارتی پیرا ملٹری فوجی ایک پولنگ بوتھ کا پہرا دے رہا ہے جہاں لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے کھڑے ہیں۔ فوٹو 25 ستمبر 2024

  • بھارتی زیر انتظام کشمیر کے صرف 56 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے: انتخابی عہدے دار
  • متنازع علاقے جموں و کشمیرمیں 10 برسوں میں یہ اسمبلی کے پہلے انتخابات کا دوسرا مرحلہ تھا۔
  • بدھ کو ہونے والی ووٹنگ میں 26 اسمبلی حلقوں کے لیے 229 امیدواروں نے حصہ لیا۔
  • 25 لاکھ سے زیادہ بالغ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
  • ’’تمام چھ ڈسٹرکٹس میں پولنگ پرامن طریقے سے ختم ہوئی ۔ چیف الیکٹورل افسر
  • کسی بھی جگہ دوبارہ پولنگ کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارت کے زیر انتظام متناعہ علاقے جموں و کشمیر میں بدھ کے روز صرف 56 فیصد سے زیادہ ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کی اطلاع ملی، جہاں دس برس میں قانون ساز اسمبلی کے پہلےانتخابات ہو رہے ہیں۔

بدھ کو ہونے والی ووٹنگ میں 26 اسمبلی حلقوں کے لیے 229 امیدواروں نے حصہ لیا، جو تین مرحلوں پر محیط انتخابات کا دوسرا مرحلہ تھا ۔ 25 لاکھ سے زیادہ بالغ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔

سری نگر میں ایک پولنگ بوتھ کا منظر فائل فوٹو
سری نگر میں ایک پولنگ بوتھ کا منظر فائل فوٹو

انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر پانڈورنگ کونڈ براؤ پول نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا، ’’تمام چھ ڈسٹرکٹس میں پولنگ پرامن طریقے سے ختم ہوئی۔ تاہم چند مقامات پر بحث تکرار جیسے اکا دکا واقعات پیش آئے لیکن کسی بھی جگہ دوبارہ پولنگ کی ضرورت نہیں ہے۔"

جموں و کشمیر ،بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے 2019 میں اپنی محدود خودمختاری کی تنسیخ کے بعد سے ، اپنے پہلے انتخابات کا تجربہ کر رہا ہے ۔ اس تنسیخ نے اس کی حیثیت کو گھٹا کر یونین کے زیر انتظام علاقے کی شکل دے دی ہے۔

عوام اور تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

کچھ مقامی لوگ جو انتخابات کو بی جے پی اور کشمیر کے لوگوں کے درمیان مقابلہ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ حکومت نے گزشتہ عشرے میں منظم طریقے سے ان کے حقوق چھین لیے ہیں

قمر واڑی کے رہائشی، اخلاق شاہ نے VOA کو بتایا، "مایوس وقت مایوس کن اقدامات کا مطالبہ کر تاہے۔ میں جب سے ووٹ ڈالنے کا اہل ہوا ہوں میں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ آج میں محسوس کر رہا ہوں کہ ووٹ ڈالنا اور نئی دہلی کو پیغام دینا ضروری ہے، اگر ہم اب عمل کرنے میں ناکام رہے تو مجھے یقین ہے کہ بی جے پی حکومت اپنا خطرناک ایجنڈا ہمارے خلاف مسلط کردے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بھارت کو جموں و کشمیر کے لوگوں سے زیادہ اس کے وسائل کے استحصال میں دلچسپی ہے۔

شاہ نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ علاقائی سیاسی جماعتیں، خاص طور پر نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، اس کے باوجود انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کر رہی ہیں کہ دونوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ جموں و کشمیر سے بی جے پی کو نکال باہر کیا جائے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ایک دور افتادہ گاؤں فقیر گجری کے رہائشی، 25 ستمبر 2024 کو ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے پولنگ اسٹیشن پر گھنٹوں قطار میں کھڑے رہے۔

بھارتی زیر انتظٓام کشمیر کے ایک دور افتادہ گاؤں کے رہائیشی فقیر گجر
بھارتی زیر انتظٓام کشمیر کے ایک دور افتادہ گاؤں کے رہائیشی فقیر گجر

ایک سیاسی تجزیہ کار مزمل مقبول نے وی او اے کو بتایا کہ پارٹیاں اس لیے منتشر ہو گئی ہیں کیونکہ ان کے رہنما ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔

مقبول نے کہا ،"ان مین اسٹریم پارٹیوں میں سے بیشتر کسی زمانے میں ایک دوسرے کی ساتھی تھیں ۔ اب وہ مختلف ناموں اور بینرز کے ساتھ لڑنے کے لیے اپنی الگ الگ جماعتیں بنا چکی ہیں۔‘‘ ۔

انہوں نے پیشین گوئی کی کہ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی جموں و کشمیر اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں کر ے گی ۔

انہوں نے کہا کہ " ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن جموں و کشمیر میں اکتوبر 2024 کے انتخابات کے بعد حکومت کرنے کے لیے ایک بڑا اتحاد تشکیل پا سکتا ہے۔"

پرانے سری نگر کے رہائشی شمیم احمد بابا نے کہا کہ ووٹر ان پارٹیوں کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہیں، جو ایک دوسرے پر پس پردہ بی جے پی کے اتحادی ہونے کا الزام لگا رہی ہیں۔

بابا نے VOA کو بتایا، "لوگوں میں اس بارے میں بڑے پیمانے پر کنفیوژن موجود ہے کہ کون ہماری حمایت کرتا ہے اور کون حکومت کے ساتھ کھڑا ہے، کیونکہ اس مرتبہ بہت سے امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ " کاش علاقائی سیاسی جماعتیں نشستوں کی شئیرنگ پر متفق ہو جاتیں، کیونکہ اس طرح نئی دہلی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔"

عوامی نیشنل کانفرنس یا اے این سی کے نائب صدر مظفر شاہ نے کہا کہ اگر تمام علاقائی جماعتیں،بھارتی جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی سے متعلق، تحلیل ہوجانے والے اتحاد، ’پیپلز الائنس فار گپکر ڈیکلریشن‘ یا PAGD کے بینر تلےمل کر کام کرتیں تو اس سے مقامی آبادی کی تحریک کو تقویت ملتی۔

پی اے جی ڈی بڑی جماعتوں کا ایک اتحاد تھا جو اس مطالبے پر زور دینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ بھارت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرے۔

شاہ نے کہا، "PAGD کشمیر کے تقریباً پورے ڈائسپورا اور پوری دنیا میں پہچانا جاتا تھا۔" بدقسمتی سے اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے اپنے تنظیمی معاملات اور طاقت کی سیاست کو خطے کے لوگوں کے مفادات پر بہت زیادہ فوقیت دی۔ یہ حقیقت بدقسمتی سے ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی۔

پی اے جی ڈی اتحاد کے ارکان کی ایک تصویر ، فائل فوٹو
پی اے جی ڈی اتحاد کے ارکان کی ایک تصویر ، فائل فوٹو

اسی دوران بھارتی حکومت کی دعوت پر امریکہ، میکسیکو، سنگاپور اور ناروے جیسے ملکوں کے غیر ملکی سفارت کاروں کے 16 رکنی وفد نے کشمیر کا دورہ کیا۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مرکزی حکومت پر انتخابات کا مشاہدہ کرنے کے لیے غیر ملکی سفارت کاروں کو مدعو کرنے پر تنقیدکی۔

عبداللہ نے کہا اگر یہ سفارت کار جموں و کشمیر پر کوئی تبصرہ کرتے ہیں تو بھارتی حکومت فوراً کہتی ہے کہ یہ اسکا اندرونی معاملہ ہے اور وہ بیرونی مداخلت نہیں چاہتے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو وہ انہیں اب کیوں مدعو کر رہے ہیں؟‘‘

جموں و کشمیر کے انتخابات کا تیسرا مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوگا۔

فورم

XS
SM
MD
LG