رسائی کے لنکس

مودی کا دوسرا دورِ حکومت اور پاکستان بھارت تعلقات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیر اعظم نریندر مودی کے سابقہ دور حکومت میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے۔ یہاں تک کہ پلوامہ حملے اور فضائی کارروائیوں کے سبب دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔

اس دوران پاکستان بھارت سے مسلسل یہ مطالبہ کرتا رہا کہ تصفیہ طلب امور کو حل کرنے کے لیے جامع مذاکرات کا آغاز کیا جائے لیکن بھارت اپنے اس موقف پر قائم رہا کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ لہٰذا سرحد پر کشیدگی قائم رہی، سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی رہی اور سویلین اور افواج کی ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں۔

بھارت میں جاری پارلیمانی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر نریند رمودی دوبارہ کامیاب ہوتے ہیں تو اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت کی تجدید کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ نریندر مودی کی کامیابی پر سب سے پہلے عمران خان نے ہی مبارکباد پیش کی تھی۔

اب جبکہ مودی کی قیادت میں ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی ہے تو کیا مودی پاکستان سے متعلق اپنی سابقہ پالیسی میں کوئی نرمی لائیں گے؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار مودی عالمی سطح پر اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش میں بھارت کی پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سنتوش بھارتیہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو پرانی باتیں بھول کر خیرسگالی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

انھوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس دورِ حکومت میں مودی ایک اسٹیٹسمین کی طرح پیش آئیں گے اور وہ رفتہ رفتہ پاکستان کے ساتھ رشتوں کو معمول پر لائیں گے۔ پاکستان کو اپنی طرف سے یہ دکھانا پڑے گا کہ وہ دہشت گردی کا مخالف ہے۔

سنتوش بھارتیہ نے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

ان کے مطابق 2014 میں جب مودی نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی نہیں تھی۔ وہ بغیر پروگرام کے پاکستان چلے گئے تھے اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے آئے تھے۔

سنتوش بھارتیہ کے خیال میںاس بار بھی مودی ویسا ہی رویہ اختیار کریں گے لیکن پاکستان میں عسکریت پسند گروپ ہیں اور جو اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم نے بھارت میں فلاں فلاں حملے کیے، ان لوگوں کو پاکستان کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

تجزیہ کار اے یو آصف کے خیال میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستانہ اور خیرسگالانہ تعلقات دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہیں۔ اس سے خطے میں خوشحالی آئے گی اور ترقیاتی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔

اے یو آصف مزید کہتے ہیں کہدونوں ملکوں کو اپنے سابقہ موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG