رسائی کے لنکس

پاکستان کے قرض پروگرام کی بحالی میں مزید تاخیر؛ ’خمیازہ حکمران نہیں عوام بھگتیں گے‘


Pakistan coronavirus
Pakistan coronavirus

زینب مارکیٹ کراچی میں عید کی خریداری اور تیاری کا بڑے مراکز میں شامل ہے۔ اسی مارکیٹ میں بیلٹ، بٹوے اور چمڑے کی مختلف مصنوعات کا اسٹال لگانے والے نعیم رحمان کا کہنا ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید اس قدر متاثر ہوچکی ہے کہ وہ عید پر بھی خرچ کرنے سے کترا رہے ہیں۔

نعیم رحمان کا کہنا ہے کہ ایک سال میں پیٹرول کی قیمتوں میں 132 روپے کے لگ بھگ اضافہ ہوچکا ہے لیکن ان کی آمدنی مسلسل کم ہورہی ہے۔ بجلی، گیس، ٹرانسپورٹیشن، مکان کا کرایہ، بچوں کی اسکول کی فیسز سمیت دیگر اخراجات الگ بڑھ گئے ہیں۔

ان حالات میں نعیم رحمان اور ان جیسے کتنے ہی کم آمدن والے افراد کو کھانے پینے جیسی بنیادی اشیا سمیت دیگر ضروری اخراجات پورے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہناتھا جینا تو مشکل ہوچکا ہے، یہی حالت رہی تو وہ بھوکے رہنے پر بھی مجبور ہوجائیں گے۔

حکومت آج کل پاکستان میں" سنگین ہوتے معاشی حالات کا حل کیا ہوگا"کے بجائے اس سوال کا جواب دیتی نظر آتی ہے کہ'"آئی ایم ایف سے قرض کب ملے گا"۔ وفاقی وزیر اسحق ڈار ہر کچھ عرصے بعد یہ اعلان کرتے ہیں کہ جلد ہی اسٹاف لیول معاہدہ ہونے والا ہے لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض کے حصول میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے۔

ایک جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید یقین دہانیاں باقی ہیں تو بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پروگرام کی بحالی میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان اعتماد کے فقدان ہے۔ البتہ بعض ماہرین کے نزدیک چین اور امریکہ کے درمیان پایا جانے والا تناؤ بھی اس کے اسباب میں شامل ہے۔

حکومت کی جانب سے بار بار آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدے کے بارے میں مثبت اشاروں کے بیانات سامنے آرہے ہیں لیکن پاکستان کے معاشی اشاریے بدستور بحران کی سنگینی کا پتا دے رہے ہیں۔

ملک میں ڈالر کے ان فلوز انتہائی کم سطح پر ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث مہنگائی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود پیٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لیٹر اضافہ کیا۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اب ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا جو پہلے ہی ملکی تاریخ میں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔

ماہر معاشیات شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں روپے کی قدر میں کمی اور اس پر عائد 50 روپے پیٹرولیم لیوی کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور یہی سبب ہے کہ شہریوں کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم ہوتی قیمتوں کا فائدنہیں پہنچایاجاسکا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں جتنی کمی آئی ہےحکومت نے اس کے مطابق تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائیں۔ اگر ایسا کیا جاتا تو فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 300 روپے سے بھی تجاوز کرجاتی۔

قرض پروگرام کی بحالی میں اب کیا رکاوٹ ہے؟

گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی غیر ملکی زرِ مبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر فراہم کیے تھے جس کے بعد اس بات کی قوی امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تقریبا چھ ماہ سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ لیکن سنیچر ہی کو پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ابھی مزید یقین دہانیاں باقی ہیں۔

آئی ایم ایف کے مشن چیف کا کہنا تھا کہ فنڈ جہاں پاکستان کے پارٹنرز کی جانب سے معاشی سپورٹ کے اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو وہیں ابھی ملک کی معاشی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسے مزید اقدامات درکار ہیں ۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ اس قدر آسان نہیں۔ کراچی میں مقیم تجزیہ کار سلمان احمد نقوی کا کہنا ہے کہ حکومت بھی اس بارے میں سچ نہیں بتارہی کہ آخر پاکستان کو رواں مالی سال کے آخر تک واجب الادا سات ارب ڈالر بیرونی ادائیگیوں کی مد میں کس قدر پیسوں کا انتظام کیا جاچکا ہے۔

سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی ایک واضح شرط چھ ارب ڈالر کا مالیاتی بندوبست کرنا تھا۔ ان کے بقول، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے فنڈنگ کی یقین دہانی کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت یہ نہیں بتاپارہی کہ مزید دو سے تین ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے جبکہ آئی ایم ایف یہ نہیں چاہتا کہ دیوالیہ کا خطرہ مول لے کر وہ پاکستان کا قرض پروگرام بحال کردے ۔ کیوں کہ اس سے آئی ایم ایف کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بقیہ فنانسنگ کثیر جہتی فنانسنگ کا مرکب ہو سکتی ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستان کی بقیہ ضرورت اکیلے چین ہی پوری کرپائے گا یا پھر اس معاملے میں کمرشل لونز بھی حاصل کیے جائیں گے جو عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضوں سے زیادہ شرحِ سود پر ملتے ہیں اور ان کے حصول میں وقت بھی زیادہ لگ سکتا ہے۔

سلمان نقوی کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے عام شہری بے حد متاثر ہورہے ہیں جو مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت مشکل وقت میں بھی بہت اپنے اخرجات میں کوئی واضح کمی لانے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔


’چین اور امریکہ کے تعلقات کا اثر‘

دوسری جانب حبیب یونی ورسٹی میں ماہرمعاشیات ڈاکٹر اقدس افضل کا خیال ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت کے پس منظر میں ایسا لگتا ہے کہ چین قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے معاملے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قوانین کے مطابق چلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی حکام کو لگتا ہے کہ چین کی سیاسی اور معاشی طاقت کو دیکھتے ہوئے اب قواعد انہیں طے کرنے چائیے جن میں قرض کی تنظیم نو کے وقت ورلڈ بینک جیسے کثیر جہتی اداروں کو نقصان اٹھانے پر مجبور کرنا بھی شامل ہے۔

ڈاکٹراقدس کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی لڑائی میں آئی ایم ایف جیسے ادارے پھنس کررہ گئے ہیں۔ دنیا کے 21 ممالک ایک اعشاریہ تین کھرب ڈالر کا پیکیج لینے کے لیے آئی ایم ایف سے درخواستیں کررہے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جنہیں دیوالیہ کا خطرہ ہے یا پھر ان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی کوشش ہے کہ وہ چین کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ بھی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرے۔ کیونکہ گزشتہ 20 سال میں 65 ممالک ایسے ہیں جنھیں اپنےبیرونی قرضوں کا 15 فی صد جتنا حصہ چین کو واپس کرنا ہے۔ اور یہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہے جس کے تقریبا 30 فی صد بیرونی قرضے چین سے لیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر اقدس کی رائے میں اگرچہ پاکستان نے قرض پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ماضی کی طرح جلدی رقوم نہیں دے پارہا ہے۔

’آئی ایم ایف کے پاس کوئی بہانہ نہیں‘

ادھر پیر کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت ایک بڑے معاشی چیلنج کا سامنا ہے۔ اور اس وقت غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کمال مہربانی سے مجموعی طور پر تین ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی کرائی جس سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایک بڑی شرط پوری ہو گئی ہے۔

مقروض ملکوں کے دیوالیہ ہونے کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

جبکہ ہفتے کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی آخری شرط یہ تھی کہ آپ دوست ممالک سے کچھ ارب ڈالر لے کر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے مسائل میں اضافہ کرنا چاہتے تھے اور اس چیز کو ہمارے دوست ملک چین نے پہلے ہی بھانپ لیا۔

وزیرِ اعظم کے مطابق چین کو اندازہ ہوگیا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے پاکستان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا اور اسی وجہ سے چین نے ہمیشہ کی طرح اپنی دوستی کا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے حکومت سے حکومت کو دیے جانیوالے قرضوں میں دو ارب ڈالر کو رول اوور کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہمیں تین ارب ڈالر دیے ہیں جس کے لیے آرمی چیف جنرل عاصم منیر،نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دن رات کوششیں کیں۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اب آئی ایم ایف کے پاس قرض پروگرام بحال نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں۔

XS
SM
MD
LG