انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ دو ہفتے قبل عراق کے شہر تکریت کے قریب ہونے والے عراقی فضائی حملوں میں 31 شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کی جائیں۔
فضائی حملے میں ایک اسکول کو نشانہ بنایا گیا جہاں بے گھر افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس حملے میں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ یہاں کوئی شدت پسند یا عسکری سازوسامان موجود نہیں تھا۔
ہفتہ کو ہی عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے ایسے شہری علاقوں میں فضائی حملوں کو روکنے کا حکم دیا تھا جو شدت پسندوں کے زیر قبضہ ہیں کیونکہ ان کے بقول عسکریت پسندوں نے "معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال بنا رکھا ہے" اور اس اقدام کا مقصد بے گناہ زندگیوں کو بچانا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے العبادی کے اس اقدام کو سراہا۔ سی بی ایس نے پروگرام 'فیس دی نیشن' میں ان کا کہنا تھا کہ "یہ ایسی چیز ہے جس کے وقوع پذیر ہونے کا سنی آبادی شدت سے انتظار کر رہی تھی۔"
ہیومن رائٹس واچ کے خصوصی مشیر فریڈ ابراہمز کہتے ہیں کہ دولت اسلامیہ گروپ "بے انتہا وحشی ہے لیکن یہ اس اقدام کے لیے کوئی جواز نہیں جو عراقی حکومت کر رہی ہے۔" ان کا اشارہ فضائی کارروائیوں کی طرف تھا۔
ابراہمز نے عراق کے اتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ " اس طرح کا تشدد روکنے کے لیے بغداد پر دباو ڈالیں۔"
عراقی حکام نے تحقیقات کے اس مطالبے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن ہیومن رائٹس واچ کے مطابق عراقی حکومت نے کہا تھا کہ لڑاکا طیارے کے پائلٹ نے اسکول کے قریب سے گزرنے والی ایک کار کو نشانہ بنایا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس میں جنگجو سوار ہیں اور اس حملے سے ہونے والا دھماکا " معمول سے کہیں زیادہ تھا۔"
فوج کی طرف سے کی جانے والی بہت سے کارروائیوں کی وجہ سے سنی اقلیت نالاں رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سوں نے سنی شدت پسندوں کا خیر مقدم کیا جنہوں نے عراق کے شمال اور مغرب میں بہت سے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔