ہیومن رائٹس واچ نے بدھ کو ایک بیان میں مصر کے انسداد دہشت گردی کے قانون پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے دہشت گردی کے عمل کی بے انتہا وسیع تشریح سامنے لائی گئی ہے، جس سلسلے میں سختی برتنے کی صورت میں، مصر کو ’سول نافرمانی‘ درپیش ہو سکتی ہے۔
مصر کے صدر عبدالفتح سیسی نے اتوار کو ایک قانون پر دستخط کیے، جس سے دو ماہ قبل قاہرہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے بعد، جس میں ملک کے اعلیٰ ترین وکیل استغاثہ ہلاک ہوئے، اُنھوں نے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کو مضبوط بنانے کا عہد کیا ہے۔
نئے ضابطوں کی رو سے، کوئی دہشت گرد گروہ تشکیل دینے یا اُس کی قیادت کرنے پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے، دہشت گردی کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے پر عمر قید جب کہ حملوں کے لیے اکسانے یا تیار کرنے پر قید کی سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے معاون سربراہ، ندیم حوری نے کہا ہے کہ اس سخت سرکاری اعلان کے بعد، مصر کے صدر نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ملک میں مستقل ہنگامی صورت حال قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ہی ملک کا نظم و نسق چلایا جائے گا۔
بقول اُن کے، ’حکومت نے ایسے اختیارات حاصل کر لیے ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنے ناقدین اور مخالفین کو شک و شبہے کی بنیاد پر، اور دہشت گردی کے خلاف وسیع تر معاملے کی بنیاد پر نمٹے کا رویہ اپنائے گی‘۔
مصر کی نظرین نہ صرف قاہرہ میں بڑھتے ہوئے حملوں کی جانب ہیں، بلکہ جزیرہ سینائی میں مستقل پُرتشدد کارروائیوں کی طرف بھی ہے جہاں داعش کے شدت پسند اکثر پولیس اور فوج کو ہدف بناتے رہے ہیں۔
یہ حملے تب سے روز کا معمول بنے، جب سنہ 2013میں مسٹر سیسی نے اسلام نواز صدر محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹایا۔
ہیومن رائٹس واچ کے اہل کار نے کہا ہے کہ مصر کو ایک شدید بغاوت درپیش ہے اور یہ کہ حکومت کو ’بنیادی حقوق کا گلہ گھونٹنے یا اختلاف رائے پر قدغن لگانے، یا پھر مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دہشت گردی کے ضوابط کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے‘۔