|
نئی دہلی -- بھارتی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر واقع کھنوری اور شمبھو بارڈر پر تقریباً ایک سال سے چلنے والے کسانوں کے دھرنے اور 56 روز سے کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال کے مرن برت (تادمِ مرگ بھوک ہڑتال) کا معاملہ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کے کسان گزشتہ سال 13 فروری سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسانوں کی ایک تنظیم ’سمیوکت کسان مورچہ‘ (ایس کے ایم، غیر سیاسی) کے سربراہ جگجیت سنگھ ڈلیوال کھنوری میں گزشتہ سال 26 نومبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس درمیان بارہا ان کی صحت خراب ہوئی۔
سپریم کورٹ نے ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کی تھی۔ اس نے ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ (ایمس) کے ڈاکٹرز کی بھی ایک کمیٹی بنائی ہے۔
مرکزی حکومت نے کسانوں اور حکومت کے درمیان جاری تعطل کو دُور کرنے کے لیے کسان نمائندوں کو مذاکرات کے لیے 18 فروری کو مدعو کیا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ سال 18 فروری کو حکومت اور کسانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت ناکام ہو گئی تھی جس کے بعد سے مسلسل تعطل برقرار ہے۔
حکومت کے اس اعلان کا یہ فوری نتیجہ برآمد ہوا کہ ڈلیوال نے ہفتے اور اتوار کی رات سے طبی امداد لینا شروع کر دی تاہم وہ اب بھی کوئی غذا نہیں لے رہے ہیں۔ صرف پانی پر ان کا گزارا ہے۔
ان کی حمایت میں 15 جنوری سے 121 کسان بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے تھے۔ ڈلیوال کے میڈیکل ایڈ لینے کے بعد انھو ںنے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔
بہت سے کسان مذاکرات کے حکومت کے اعلان کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست پنجاب کے وزیرِ زراعت گورمیت سنگھ نے اتوارکو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈلیوال کی صحت انتہائی خراب ہے۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو اسے ایک یا دو روز کے اندر ہی مذاکرات کرنے چاہئیں۔
'حکومت کسان مخالف قوانین خفیہ طریقے سے نافذ کرنا چاہتی ہے'
کسانوں کی ایک تنظیم ’جے کسان آندولن‘ کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رمضان چودھری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کا سیاسی حربہ ہے۔ بقول ان کے حکومت نے دہلی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں منفی ووٹ پڑنے کے ڈر سے اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت دہلی اسمبلی کے لیے انتخابی مہم چل رہی ہے۔ بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے۔ پانچ فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور آٹھ فروری کو ووٹوں کی گنتی ہو گی۔
حکومت کی دلیل ہے کہ چوں کہ نو فروری تک ضابطہ اخلاق نافذ ہے اس لیے وہ کوئی اعلان نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ 14 فروری کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رمضان چودھری کاکہنا تھا کہ اس سے قبل کسان تحریک کے نتیجے میں حکومت نے متنازع تینوں زرعی قوانین واپس لے لیے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے اور ریاستی حکومتوں کی مدد سے ان قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ اس نے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زرعی اصلاحات کیں اور ان قوانین کو پارلیمان سے منظور کرایا تھا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کے مقصد سے متعدد اقدامات کیے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے پروگراموں کا بھی اعلان کیا ہے۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
- فصلوں پر حکومت کی جانب سے طے کی جانے والی قیمت ’منیمم سپورٹ پرائس‘ (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی دی جائے۔
- کسانوں کے قرضہ جات معاف کیے جائیں۔ کسانوں اور کسان مزدوروں کو پینشن دی جائے اور بجلی کی شرحوں میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے۔
- سال 2021 میں اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں احتجاج کے دوران کسانوں کے خلاف جو کیسیز درج کیے گئے تھے، وہ واپس لیے جائیں اور وہاں ہونے والے تشدد کے متاثرین کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
- زمینوں کو تحویل میں لینے کے قانون ’لینڈ ایکویزیشن ایکٹ 2013‘ کو بحال کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے تحویل میں لی جانے والی زمینوں کے معاوضے میں 64 فیصد کا اضافہ کیا جائے جو کہ بازار شرح سے چار گنا زیادہ ہے۔
- سال 2020-21 کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا جائے۔ یاد رہے کہ احتجاج کے دوران 700 سے زائد کسان ہلاک ہوئے تھے۔
- بے زمین کسان مزدوروں کے بچوں کو ملازمت اور رہائشی فوائد دیے جائیں اور فوری آبادی والے علاقوں میں مناسب آبادکاری کی جائے۔
سابقہ اور موجودہ احتجاج کا فرق
سال 2021-2020 میں چلنے والی تحریک کی قیادت متحدہ ایس کے ایم نے کی تھی۔ اس محاذ میں تقریباً کسان 600 تنظیمیں شامل تھیں۔
وہ کسانوں کا پہلا ایسا محاذ تھا جس میں پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور راجستھان وغیرہ میں سرگرم الگ الگ کسان تنظیموں کے علاوہ تمل ناڈو، کیرالہ، آندھرا پردیش، تیلنگانہ، مہاراشٹر اور کرناٹک جیسی ریاستوں کی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔
رمضان چودھری کے مطابق گزشتہ احتجاج میں جگجیت سنگھ ڈلیوال سمیت متعدد بڑے کسان رہنما قیادت کر رہے تھے۔ ان تنظیموں کی ایک کل ہند رابطہ کمیٹی تھی جس میں 128 تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔
تنظیموں کی ایک مرکزی کمیٹی تھی جس میں ایک سو سے زائد کسان رہنما شامل تھے۔ جب کہ ریاستی رابطہ کمیٹیاں الگ تھیں۔ رابطہ کمیٹی میں شامل تنظیموں کی ایک سات رکنی کمیٹی بھی تھی۔
رابطہ کمیٹی اب بھی ہے لیکن جگجیت سنگھ ڈلیوال کے الگ ہو جانے کی وجہ سے کمیٹی غیر فعال ہو گئی ہے۔ ایس کے ایم میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور ڈلیوال نے اپنا الگ گروپ بنا لیا ہے۔
بعض کسان رہنماؤں کا خیال ہے کہ ڈلیوال عجلت پسند ہیں۔ تاہم کسان تنظیموں اور کسان رہنماوں کی ہمدردی ان کے ساتھ ہے لیکن وہ عملی طور پر ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
رمضان چودھری کے مطابق کسان تنظیموں میں عدم اتحاد کی وجہ سے تحریک کو نقصان پہنچا ہے۔ ورنہ حکومت کو کسانوں کے مطالبات ماننے پڑتے۔
گزشتہ احتجاج کے دوران شمبھو اور غازی پور بارڈر سے کسانوں کے دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا غیر معمولی انتظام کیا گیا تھا اور سڑکوں پر خاردار تاروں کی باڑ لگا دی گئی تھی۔
اس بار اس سے گریز کیا گیا۔ البتہ جب احتجاج کے آغاز پر کسانوں کے گروپ شمبھو بارڈر سے دہلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے تو پولیس نے طاقت کا استعمال اور آنسو گیس کے شیل داغ کر ان کی متعدد کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اس دوران کئی کسان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ کسانوں نے تین بار ناکام کوشش کی۔
حکومت کا رویہ
سابقہ احتجاج کے دوران مرکزی وزارتِ صحت اور کسان رہنماؤں کے درمیان 20 سے زائد ادوار کے مذاکرات ہوئے تھے۔ اس وقت کے وزیرِ صحت اور وزیرِ غذا بھی مذاکرات میں شریک ہوتے تھے۔
گزشتہ سال فروری میں جب احتجاج کے آغاز پر دہلی مارچ کا اعلان کیا گیا تو وزارتِ زراعت کے نمائندوں نے کسانوں سے دو دور کی بات چیت کی جو ناکام رہی۔ اس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور تعطل برقرار ہے۔
یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر ریلی کا اعلان
اب کسانوں نے 26 جنوری یوم جمہوریہ پر ملک گیر سطح پر ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ 2021 میں 26 جنوری کو ایس کے ایم کی کال پر کسان بڑی تعداد میں اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی میں داخل ہو گئے تھے۔
ان کے ٹریکٹر تاریخی لال قلعہ کی جانب بڑھے تھے اور بعض کسانوں نے لال قلعہ کی فصیل پر چڑھ کر سکھ مت کا پرچم پھہرا دیا تھا۔ اس وقت کچھ ناخوش گوار واقعات بھی رونما ہوئے تھے۔
فورم