رسائی کے لنکس

موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان میں آم کی فصل کو کس طرح متاثر کر رہی ہیں؟


 پاکستان کا شمار آم پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔
پاکستان کا شمار آم پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔
  • پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آم کی فصل بھی متاثر ہو رہی ہے۔
  • آم کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اور ہر سال ہزاروں ٹن آم بیرونِ ملک برآمد کیا جاتا ہے۔
  • کاشت کاروں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم فصل ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے کسانوں کو اس حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں دی جا رہی۔
  • صوبہ پنجاب میں آم کی فصل 14 ٹن فی ہیکٹر ہے جب کہ سندھ میں یہ شرح چھ ٹن فی ہیکٹر ہے۔

لاہور -- "موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمِ سرما کے طویل ہونے کے سبب آم کی نئی فصل اُس طرح تیار نہیں ہوئی جس حساب سے ماضی میں ایک شان دار فصل پک کر تیار ہوتی تھی۔ اِسی طرح موسم کی تبدیلی کے باعث آم کی فصل کو لگنے والی بیماری تیلہ ابھی تک قابو میں نہیں آ رہی۔"

یہ کہنا ہے ملتان میں آم کے کاشت کار محمد مکی کا جو بڑے رقبے پر آم اُگاتے ہیں۔ مگر اِس سال موسمیاتی تبدیلیوں کے آم کی فصل پر اثرات کے باعث وہ پریشان ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ رواں سال موسمِ سرما کے طویل ہونے اور موسمِ گرما میں شدید گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کے باعث آم کی فصل اور پیداوار متاثر ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گرمی کی شدید لہر کے سبب آم کے کچھ حصے وقت سے پہلے پَک کر تیار ہو گئے ہیں جن کا رنگ پیلا ہو گیا ہے جب کہ اُسی آم کا ایک حصہ تاحال کچا ہے جس کا رنگ سبز ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے محمد مکی کی طرح آم کاشت کرنے والے ہزاروں کاشت کار اسی نوعیت کی پریشانی سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے جو آم مارکیٹ میں آ رہے ہیں اُن میں روایتی مٹھاس اور ذائقے میں کمی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

آم کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اور ہر سال ہزاروں ٹن آم بیرونِ ملک برآمد کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں آم کی فصل سب سے پہلے صوبہ سندھ میں پَک کر تیار ہوتی ہے۔ جہاں سندھڑی آم کو مئی کے آخری ہفتے میں درخت سے اُتار لیا جاتا ہے جس کا مقامی کاشت کار کو مالی فائدہ بھی ہوتا ہے۔

کاشت کاروں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم فصل ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے کسانوں کو اس حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں دی جا رہی۔

محمد مکی کا کہنا تھا کہ رواں سال سردیوں میں دھند کا دورانیہ بھی زیادہ رہا ہے۔ دھند نے بھی آم کے باغوں کو اچھا خاصا متاثر کیا ہے۔

ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے آم کے زمیندار جنید خان سمجھتے ہیں کہ سردی اور گرمی کی شدت زیادہ ہونے کے سبب آم کی فصل زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ دونوں موسموں میں جہاں درجۂ حرارت گھٹا اور بڑھا ہے وہی اِن کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی موسم کی شدت صرف دو دِنوں کے لیے بھی آئے تو وہ براہِ راست آم کی فصل کو متاثر کرتی ہے۔ سردی کی شدت زیادہ ہو اور طویل ہو تو درخت کو پھل نہیں لگتا، اِسی طرح اگر گرمی کی شدت زیادہ ہو تو وہ پھل کو جلا دیتی ہے۔

جنید خان کے بقول موسمی اثرات کے باعث آم کی فصل پر بیماریوں کے اثرات زیادہ آ رہے ہیں جن میں کیڑوں کے حملوں کا زیادہ ہونا، بیماریوں سے بچاؤ کے اسپرے کا اثر کم ہونا اور پیداوار میں نمایاں کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آم کے حجم یعنی سائز پر بھی فرق پڑ رہا ہے۔

جنید خان بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آم کی فی ایکٹر پیداوار پر اثر پڑا ہے جو کہ 20 فی صد سے 40 فی صد تک کم ہوئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں میں آم کی پیداوار دو سو من فی ایکڑ تک تھی جو کہ اَب گھٹ کر 180 من فی ایکٹر سے 150 من فی ایکڑ تک آ گئی ہے۔

محمد مکی بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا آموں کی سبھی اقسام پر اثر دیکھنے میں آیا ہے جس کے سبب تمام اقسام کے آموں کی فی ایکڑ پیداوار متاثر ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر موسم اور حالات ساتھ دیں تو فصل دوسرے سال بھی اچھی ہو جاتی ہے۔ لیکن رواں سال چونسے کی فصل کو اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔

بیماری کا اثر

محمد مکی بتاتے ہیں کہ رواں سیزن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب جس دِن رات قدرے ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو تیلہ کی افزائش دوبارہ شروع ہو جاتی ہے کیوں کہ تیلہ (کیڑا) گرم موسم میں افزائش نہیں کرتا۔

جنید خان کے مطابق صوبہ سندھ میں آم کی مختلف اقسام خاص طور پر سندھڑی متاثر ہے جب کہ صوبہ پنجاب میں سندھڑی اور چونسہ زیادہ متاثر ہیں۔ اِسی طرح دیگر اقسام پر بھی اثر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جہاں ایک طرف پیداوار گھٹ رہی ہے وہی دوسری جانب فصل پر اخراجات بڑھ رہے ہیں۔

بہتر دیکھ بھال

جنید خان سمجھتے ہیں کہ سرکاری سطح پر آم کے کاشت کاروں کی رہنمائی کی جائے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔

ملتان میں قائم مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ملک سے بہار کا موسم تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مارچ میں موسم سرما ختم ہو جاتا ہے۔ سردیوں کی مدت بڑھ جانے کی وجہ سے گرم ہوائیں نہیں چلتی۔ اس سے درختوں کے پھولوں اور پھلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایم آر آئی میں تعینات سائنٹیفک افسر عابد حمید خان بتاتے ہیں کہ رواں برس صوبہ پنجاب میں جنوری اور فروری کے مہینوں میں کم وبیش پورے دو مہینے سورج نہیں نکلا جس کے باعث آم کے باغات متاثر ہوئے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مئی میں شدید گرمی کی لہر کے سبب درجۂ حرارت 44 ڈکری سینٹی گریڈ سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا جس کے اثرات آموں کی مختلف اقسام میں دیکھے گئے۔

اُن کے بقول شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے آم کی قسم سندھڑی کی شکل و صورت تبدیل ہو گئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح سفید چونسے کی ایک سائیڈ پر کالے نشان پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی طرح آموں کی دیگر اقسام میں شدید گرمی کے سبب آم اوپر کے حصے سے پکنا شروع ہو جاتا ہے اور اُس کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

تو پھر کاشت کاروں کو کیا کرنا چاہیے؟

عابد حمید خان بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے زمیندروں کو آموں کے باغات کو گرمی کی شدت سے بچانے کے لیے آبپاشی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ ایسے باغات جہاں مئی کے مہینے میں بہتر آب پاشی ہوتی رہی، وہاں سَن برن کے اثرات کم ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ باغات میں آموں کی دو قطاروں کے درمیان سبزے کو یقینی بنایا جائے۔ اگر وہاں پر سبزہ نہیں ہو گا تو باغ کا درجۂ حرارت بڑھ جائے گا جو کہ فصل کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

آموں کی مجموعی پیداوار

عابد حمید خان کے مطابق صوبہ پنجاب میں آم کی فصل 14 ٹن فی ہیکٹر ہے جب کہ سندھ میں یہ شرح چھ ٹن فی ہیکٹر ہے۔

مینگو ریسرج انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں آموں کی مجموعی پیداوار میں صوبہ پنجاب میں 70 فی صد حصہ ڈالتا ہے جب کہ صوبہ سندھ سندھ کا اِس میں حصہ 30 فی صد کے قریب ہے۔ ایم آئی آئی کے مطابق گزشتہ سال پاکستان نے ایک لاکھ 46 لاکھ ٹن آم برآمد کیا تھا۔ اِس بار کا ہدف تو زیاد ہے جس کا سارا انحصار موسم پر ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG