|
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد پیر کے روز شام کے عوام کو آزادی اور انصاف حاصل کرنے پر مبارک باد دی ہے۔
شام کے دارالحکومت دمشق میں اتوار کے روز باغی فورسز کے داخل ہونے کے بعد یہ حماس کی جانب سے یہ پہلا عوامی ردعمل تھا۔
باغیوں کے دمشق پہنچنے پر صدر اسد اپنے خاندان سمیت بیرون ملک فرار ہو گئے اور ان کے خاندان کے پانچ دہائیوں پر محیط اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔
اسد کو اپنے دور اقتدار میں 13 سال تک خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا۔
غزہ کی پٹی کے حکمران اسلامی عسکری گروپ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم شام کے عظیم عوام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور ہم شامی لوگوں کی رضا، آزادی اور سیاسی انتخاب کا احترام کرتے ہیں۔
حماس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ اسد کے بعد شام کے عوام فلسطینیوں کی حمایت میں اپنا تاریخی اور اہم کردار جاری رکھیں گے۔
ایک الگ بیان میں، ایک ایرانی حمایت یافتہ گروپ اور حماس کے اتحادی،اسلامی جہاد نے ان جذبات کی بازگشت کی۔
عسکری گروپ اسلامی جہاد کے سربراہ زید النخالہ نے اپنے ایک الگ بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جہاد کو امید ہے ہے شام فلسطینی عوام اور ان کے منصفانہ مقصد کا ہمیشہ کی طرح ایک حقیقی حامی رہے گا۔
حماس نے 2011 میں سنی مسلمانوں کی جانب سے بشار الاسد کی حکمرانی کے خلاف عوامی بغاوت کی حمایت کی تھی اور 2012 میں دمشق میں اپنا ہیڈکوارٹر خالی کر دیا تھا، جس پر ایران نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
حماس نے،خود کو اس وقت اسد سے دور کر لیا تھاجب انہوں نے بنیادی طور پر سنی مسلم مظاہرین اور باغیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
حماس کی نظریاتی ڈوریاں سنی گروپ اخوان المسلمون سے جڑی ہیں جبکہ اسد کا علوی فرقہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ اسد نے مسلم مظاہرین اور باغیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا تھا۔
اسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد حماس کا مثبت ردعمل شیعہ مسلمان گروپ حزب اللہ کے برعکس ہے۔ حزب اللہ برسوں تک شام کی خانہ جنگی میں اسد کی مدد کرتا رہا ہے۔
حزب اللہ کے ایک سینئر سیاست دان نے پیر کے روز شام میں رونما ہونے والے واقعات کر خطرناک قرار دیا ہے۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
فورم