شدت پسند تنظیم داعش کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی امریکی قیادت میں عالمی کوششیں جہاں سست روی کا شکار ہیں وہیں غیر ملکی جنگجوؤں کی شام اور عراق میں آمد کو روکنے کے حوالے سے ہونے والی کوششوں میں پیش رفت بھی سست ہے۔
امریکی عہدیدار کئی ماہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اتحادی فورسز کی طرف سے 7,000 سے زائد فضائی کارروائیوں میں’’جتنی تعداد میں ہم ان عسکریت پسندوں کو ہلاک کرتے ہیں‘‘ اتنی ہی تعداد میں داعش دوسرے جنگجوؤں کو ان کی جگہ تعنیات کر رہی ہے۔ ان نئے جنگجوؤں میں سے چند ایک گوریلا جنگ کے فن میں نو آموز ہیں تاہم بہت سے ایسے نہیں ہیں۔
ایک امریکی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’عام طور پر ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ داعش (میں بھرتی ہونے والے) حکمت عملی میں مہارت رکھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ان کی بڑی تعداد لڑائی کا کافی تجربہ رکھتی ہیں۔‘‘
عہدیدار جو سرکاری طور پر میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہے، نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تجربہ رمادی اور بیجی جیسی جگہوں پر داعش کے بہت کام آ رہا ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں نے حکمت عملی اور کمک کی فراہمی کی مدد سے عراقی فورسز کو روک رکھا ہے۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا کے کہ اس مسئلے کی ایک وجہ یہ ہے کے غیر ملکی جنگجوؤں کے داخلے کا سب سے مقبول راستہ ترکی اور شام کی سرحد ہے۔ ترکی کی طرف سے غیر قانونی داخلوں کو روکنے کی کوششوں کے باوجود اسے مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکا۔
اس کے نتیجے میں اوسطً ہر ماہ تقریباً 1,000 جنگجو شام میں داخل ہو رہے ہیں۔
امریکی قانون سازوں کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عراق اور شام میں غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد 30,000 ہے جس میں سے 4,500 کا تعلق مغربی ممالک سے ہے جن میں 250 امریکی شہری ہیں۔
اقوام متحدہ میں منگل کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے متعلق ایک سربراہی کانفرنس میں سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق غیرملکی جنگجوؤں کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ان کا تعلق 100 سے زائد ممالک سے ہے۔
امریکی عہدیداروں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں روسی افواج میں اضافے کی وجہ سے غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی دفاعی عہدیدار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ داعش سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایک اعلیٰ دفاعی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’’انہوں نے جنگجو بننے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بڑی موثر مہم شروع کر رکھی ہے۔ تاہم جب ہم داعش کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں تو اس سے ان کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ان کی کشش میں کمی ہو گی۔‘‘
تاہم دوسرے مبصرین اس بارے میں اتنے پر اعتماد نہیں ہیں۔
ایک سابق امریکی جنرل جیک کین نے بدھ کو ایوان نمائندگان کی امورخارجہ کی کمیٹٰی کو بتایا کہ ’’ہم (داعش کے) ںظریے اور داعش کی طرف سے (جنگجوؤں کو) بھرتی کرنے پر اثر انداز نہیں ہو سکے ہیں"۔
دوسری طرف غیر ملکی جنگجوؤں کی بھرتی کو روکنے کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ انتہا پسندوں کی بھرتی کو سست کرنے میں مشکلات کی ایک وجہ اس مسئلے پر عالمی ردعمل ہے جو عموما سرکاری ’’عملی منصوبوں‘‘ کی صورت میں دیا جاتا ہے۔
ناروے سے ایک سابق انتہا پسند یوسف بارتھو الاصدیق نے کہا کہ ’’میں تمام یورپ بھر سے اور امریکہ سے بھی متعدد مسلمان نوجوانوں سے مل چکا ہوں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ زمینی حقائق سے بہت دور ہے اور یہ سیاستدانوں اور منتخب نمائندوں کا ایک پالیسی ہتھیار ہے۔‘‘
دوسری طرف کئی ایک تجزیہ کار مشرق وسطیٰ کی کچھ سنی عرب ریاستوں کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں جنہوں نے خاموشی سے غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد کی حمایت کی ہے کیونکہ وہ اسے شام کے شعیہ حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹانے کا موقع سمجھتی ہیں۔