خیبرپختونخوا: ہزاروں ایکڑ پر فصلیں متاثر، سینکڑوں مویشی ہلاک
خیبرپختونخوا میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں متاثر ہوئی ہیں جب کہ سینکڑوں مویشی بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔
صوبائی محکمۂ زراعت اور لائیو اسٹاک کے حکام کے مطابق اب تک 14 ہزار 394 ایکڑ پر 12 اقسام کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ 1261 مویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔
محکمۂ زراعت کے ڈائریکٹر کراپس رپورٹنگ محمد کلیم کا کہنا ہے کہ فصلیں اور سبزیاں پانی کی نذر ہوجانے سے کسانوں کو تین ارب 66 کروڑ 27 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
ادھر محکۂ لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر جنرل عالم زیب خان نے بتایا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں 1261 مویشی اور تین ہزار 711 مرغیاں ہلاک ہوئیں جب کہ 65 جانوروں کے شیڈز مکمل اور 84 کو جزوی نقصان پہنچا۔
بولان: 12 انچ قطر کی گیس پائپ لائن سیلاب میں بہہ گئی
سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے بدھ کو جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بولان بی بی نانی کے مقام پر گیس پائپ لائن ریلے میں بہنے سے کوئٹہ، مستونگ، قلات، پشین اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی کی ٹیمیں بحالی کی کوششوں کے لیے جائے وقوع پر روانہ ہوگئی ہیں۔
واضح رہے کہ اسی مقام پر 19 اگست کو 24 انچ قطر کی گیس پائپ لائن کو سیلاب سے نقصان پہنچا تھا جس کی بحالی کا کام مسلسل بارشوں کے باعث تا حال مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
پورا پاکستان سیلاب سے متاثر ہوا ہے، صورتِ حال سنگین ہے: شیری رحمان
پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں مون سون بارشوں میں اضافہ ہوا ہے اور ایک کے بعد ایک اسپیل آ رہے ہیں۔ اس وقت آٹھواں اسپیل آ چکا ہے جب کہ لاکھوں لوگوں متاثر ہوئے ہیں ہے اور وہ بغیر چھت کے رہ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جنوبی علاقے بلوچستان اور سندھ بارشوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی اضلاع اس وقت سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ قومی سطح پر ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس وقت صورتِ حال سنگین ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دریائے سندھ میں اس وقت دونوں کناروں پر آبادیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ 2010 میں سیلاب میں دریا کے ایک جانب پانی سے علاقے متاثر ہوئے تھے۔ تمام ادارے متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں۔
مون سون بارش اور سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی اثرات کے باعث سیلاب سے سنگین نوعیت کا نقصان ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ستمبر میں بھی بارش کے مزید اسپیل آ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے مقامات کا تعین کیا جا رہا ہے جہاں سے متاثرین کی مدد کی جا سکے۔ متاثرین کی رہائش اور خوراک کے حوالے سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
سیلابوں ریلوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکھر بیراج اور تونسہ بیراج میں پانی بھر چکا ہے اور اب پانی آبادیوں کی جانب جا رہا ہے۔ ملک کے ہر شہر میں فوج نے بھی مدد کے لیے بیس کیمپ بنا لیے ہیں۔ مختلف علاقوں میں کھجور، کپاس سمیت دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مون سون میں ایسی صورتِ حال کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
اموات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب سے 913 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھی پاکستان کی مدد کرے۔ یہ ایک غیر متوقع اور غیر معمولی بارش ہے۔ پاکستان بھی دیگر ممالک کی مشکل وقت میں مدد کرتا رہا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت سیاسی معاملات نہیں یہ سیلاب ہے۔ لاکھوں لوگ خوراک اور چھت کے بغیر رہ رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت وسائل کی کمی اور فقدان ہے۔ سڑکیں اور ٹرین کا نظام تباہ ہوا ہے۔ ستمبر یا اگلے مہینوں کے لیے ہنگامی تیاری کی جا سکتی ہے البتہ آئندہ برسوں کے لیے صوبوں کو اس حوالے سے تیاری کرنی ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی اس قدر تیزی سے ہو رہی ہے کہ ایک کے بعد ایک اس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
سیلاب سے مستقبل کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے شیری رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آنے والے وقت میں خوارک کا مسئلہ ہوگا کیوں کہ سیلاب کے بعد زمین آئندہ فصل کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ اب آئندہ برسوں کے لیے سائنسی بنیادوں پر تیاری اور اس سے نمٹنے کے انتظامات کی ضرورت ہوگی۔ دریائے سندھ میں سال بھر ایک خشک سالی رہتی ہے البتہ اب اس میں سیلاب کی صورت حال ہے۔
کوئٹہ میں مسلسل 30 گھنٹے بارش، شہر کے مختلف علاقے پانی میں ڈوب گئے
بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں جمعرات کو مسلسل 30 گھنٹے ہونے والے موسلا دھار بارش کے بعد شہر کے نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئےہیں ۔
کوئٹہ سے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق شہر کے نواحی علاقے نواں کلی بائی پاس، اسپنی روڈ، خروٹ آباد اور پشتون آباد میں رات گئے بڑا سیلابی ریلہ گھروں میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے متعدد کچے مکانات منہدم ہو گئے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے [پی ڈی ایم اے] کی ریسکیو اور ریلیف ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں۔ ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل طارق نے بتایا کہ نواں کلی میں پانی میں پھنے ہوئے لگ بھگ 100 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے گا جب کہ مزید 150 کو بھی جلد ریسکیو کر لیا جائے گا۔
فیصل طارق کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں ہیوی مشینری پہنچا دی گئی ہے جس کی مدد سے پانی کی گزر گاہوں کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔