رسائی کے لنکس

جمال خشوگی کے بیٹے نے والد کے قاتلوں کو معاف کر دیا


مقتول سعودی صحافی کے صاحبزادے صالح خشوگی کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام افراد کو معاف کرتے ہیں جو ان کے والد کے قتل میں ملوث ہیں۔
مقتول سعودی صحافی کے صاحبزادے صالح خشوگی کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام افراد کو معاف کرتے ہیں جو ان کے والد کے قتل میں ملوث ہیں۔

سعودی صحافی جمال خشوگی کے بیٹے صالح خشوگی نے والد کے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جمال خشوگی کے صاحبزادے صالح نے جمعے کو ٹوئٹر پر عربی زبان میں جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ "ہم اُن تمام افراد کو معاف کرتے ہیں جو ہمارے والد کے قتل میں ملوث ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ فضیلت والی رات (شبِ قدر) کے موقع پر وہ اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص معاف کر دے اور مفاہمت کر لے تو اس کا اجر اللہ دے گا۔

اس سے قبل صالح نے کہا تھا کہ اُنہیں سعودی نظامِ انصاف پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ مخالفین پر والد کے قتل کا کیس خراب کرنے کے الزامات بھی عائد کر چکے تھے۔

صالح خشوگی ان دنوں سعودی عرب میں ہی مقیم ہیں۔

صحافی جمال خشوگی کو اکتوبر 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا جن کی باقیات آج تک نہیں مل سکی ہیں۔

جمال خشوگی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے تھے اور وہ سعودی شاہی خاندان کے ناقد تھے۔

واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ برس اپریل میں شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ صالح خشوگی سمیت جمال خشوگی کے دیگر بچوں کو حکام کی جانب سے پرتعیش گھر کے علاوہ ماہانہ ہزاروں ڈالرز وظیفہ دیا جا رہا ہے۔

تاہم صالح نے ان خبروں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے اہلِ خانہ کے سعودی حکام کے ساتھ کوئی مالی معاملات نہیں۔

جمال خشوگی کا قتل اس وقت ہائی پروفائل کیس بن گیا تھا جب اس قتل میں سعودی شاہی خاندان کے ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

جمال خشوگی کے صاحبزادے صالح کی سعودی فرماں رواں شاہ سلمان سے ملاقات کی ایک تصویر جسے سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے جاری کیا تھا۔
جمال خشوگی کے صاحبزادے صالح کی سعودی فرماں رواں شاہ سلمان سے ملاقات کی ایک تصویر جسے سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے جاری کیا تھا۔

امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں اور اقوامِ متحدہ کے نمائندۂ خصوصی نے جمال خشوگی کے قتل کا براہِ راست الزام سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کیا تھا۔ تاہم سعودی شاہی خاندان اِن الزامات کی تردید کرتا ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کی ایک عدالت نے جمال خشوگی قتل کیس میں 11 ملزمان پر فردِ جرم عائد کی تھی جن میں سے پانچ کو بعد ازاں عدالت نے سزائے موت اور تین کو 24 برس قید کی سزا سنائی تھی۔

سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس دسمبر میں کہا تھا کہ عدالت نے تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا کر بری کر دیا تھا۔

ترک حکومت نے جمال خشوگی کے قتل کی اپنے طور پر بھی تحقیقات کی تھی جن کے مطابق سعودی صحافی کو منصوبے کے تحت قتل کیا گیا تھا جس کے لیے سعودی عرب نے اپنے 15 ایجنٹ استنبول بھیجے تھے۔

جمال خشوگی کو آخری مرتبہ 02 اکتوبر 2018 کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا جس کی سی سی ٹی وی ویڈیو بھی منظرِ عام پر آئی تھی۔ بعد ازاں ترک حکام نے ایک آڈیو ٹیپ بھی جاری کی تھی جس میں قتل سے قبل خشوگی پر تشدد اور ان کی چیخ و پکار سنی جا سکتی تھی۔

خشوگی کے قتل پر سعودی حکومت کو دنیا بھر میں سخت احتجاج اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دنیا کے کئی ملکوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی حکومت سے قتل کے ذمے داران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم سعودی حکومت کا موقف رہا ہے کہ جمال خشوگی کے خلاف اس کے بعض سرکاری اہلکاروں نے اپنے طور پر کارروائی کی تھی اور اس قتل میں حکومت یا شاہی خاندان کی کسی اعلیٰ شخصیت کا ہاتھ نہیں تھا۔

XS
SM
MD
LG