رسائی کے لنکس

فیصل آباد: شہریوں سے نکاح نامے طلب کرنے پر پابندی، 'ہمارا کام مورل پولیسنگ نہیں'


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے پولیس سربراہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں عوامی مقامات پر شہریوں سے نکاح نامے طلب کرنے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی ہے۔ پولیس چیف کا مؤقف ہے کہ پولیس کا کام شہریوں کو ہراساں کرنا نہیں بلکہ اُن کی حفاظت کرنا ہے۔

فیصل آباد کے پولیس چیف عمر سعید کی جانب سے یہ حکم نامہ ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب شہریوں کی جانب سے شکایات پر چار پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تھا۔

پولیس کو یہ حکم نامہ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے سی پی او فیصل آباد عمر سعید ملک نے کہا کہ گزشتہ دِنوں وہ حسبِ معمول کیمروں کے ذریعے فیصل آباد کی نگرانی کر رہے تھے۔ تو ایک کیمرے میں اُنہوں نے دیکھا کہ کچھ پولیس اہلکار ایک بینک کی اے ٹی ایم مشین کے باہر ایک گاری کے گرد کھڑے ہیں۔

اِسی دوران اے ٹی ایم سے نکلنے والا شخص پولیس کو کچھ پیسے دیتا ہے جس کے بعد پولیس اہلکار وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ پولیس کے جانے کے بعد مذکورہ شخص اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے رخصت ہو جاتا ہے جس میں ایک خاتون بھی بیٹھی ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمر سعید نے بتایا کہ اُنہوں نے خفیہ طور پر اِس واقعے کی انکوائری کرانا شروع کر دی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کو اس حوالے سے ایک درخواست بھی موصول ہوئی جس میں پولیس کے رویے کے بارے میں شکایت کی گئی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے تنگ کرتی ہے اور ان سے رشوت طلب کی جاتی ہے۔

نام نہ بتانے کی شرط پر ایک درخواست گزار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ ضلع ننکانہ میں سرکاری ملازم ہیں۔ رواں ماہ جون میں وہ شام کے وقت جڑانوالہ روڈ پر اپنی کزن کے ہمراہ گاڑی پر جا رہے تھے کہ پولیس نے روک لیا۔

درخواست گزار کے بقول پولیس اہلکاروں نے اُن سے اور خاتون سے 'بیہودہ' سوالات پوچھے اور ویڈیو بھی بناتے رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی دوران پولیس اہلکاروں نے ان سے رشوت طلب کی اور اُن کی کلائی پر بندھی گھڑی اُتار لی جب کہ زیادہ ہراساں کرنے پر اُنہوں نے پولیس والوں کو قریبی اے ٹی ایم سے 20 ہزار نکلوا کر بطور رشوت دیے اور یوں ان کی جان خلاصی ہوئی۔

درخواست گزار سرکاری ملازم کے مطابق وہ اور اُن کی کزن اِس واقعے سے خوف زدہ ہو گئے اور پولیس کے رویے کے خلاف ایک درخواست جمع کرا دی جس پر پولیس نے کارروائی کی اور دورانِ تفتیش وہ متعدد بار پیش ہوتے رہے۔

خیال رہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ پولیس کی جانب سے شہریوں کو ہراساں کرنے اور اُن کی نجی زندگی میں مداخلت کے واقعات صوبے کے مختلف شہروں میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔

پولیس کے مطابق کچھ واقعات کے خلاف شہری پولیس کو درخواست دے دیتے ہیں جب کہ چند واقعات میں متاثرہ شہری پولیس کے روایتی رویوں کی وجہ سے معاملے کو آگے نہیں بڑھاتے۔

اِسی طرح کا ایک اور واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا جہاں ایک شخص کو پولیس اہلکاروں نے روکا۔ اُس نے بھی پولیس کے رویے کے خلاف درخواست دی۔ درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بیوی کے ہمراہ جا رہا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے اُسے روکا اور اُن کا نکاح نامہ طلب کیا۔

فیصل آباد پولیس نے اِس طرح کے واقعات سامنے آنے پر تحقیقات شروع کی اور اِن میں ملوث چار پولیس اہلکاروں کو دورانِ تفتیش معطل کر دیا اور تفتیش مکمل ہونے پر قصوروار ہونے کی بنا پر چار اہلکاروں کو ملازمت سے برخواست کر دیا۔

سٹی پولیس آفیسر کے مطابق پولیس فورس کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ کوئی بھی پولیس اہلکار اور افسر کسی بھی شہری کی نجی زندگی میں داخل اندازی نہیں کرے گا۔ پولیس کا کام جرائم کی روک تھام ہے، لوگوں کے نکاح نامے چیک کرنا نہیں-

'ہمارا کام مورل پولیسنگ نہیں'

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سٹی پولیس آفیسر عمر سعید نے کہا کہ مورل پالیسنگ ہمارا کام نہیں ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی غیر اخلاقی کام ہو رہا ہے تو پولیس کو اختیار نہیں کہ وہ شہریوں کو تنگ کرے اور اُنہیں ہراساں کرے۔ پولیس کا کام غیر قانونی کاموں کو روکنا ہے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اکثر ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں کہ پولیس اہلکار گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں پر غیر اخلاقی کاموں کو روکنے کے لیے کارروائیاں کرتے ہیں۔ جو اُن کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا۔ پولیس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مرد اور خاتون کے درمیان رشتے کے بارے میں پوچھے۔

مذکورہ واقعات سے متعلق سی پی او فیصل آباد نے بتایا کہ ڈولفن پولیس اہلکار محمد آصف، گل حمید، ضیا مصطفی اورعلی رضا اِس طرح کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں، جنہیں ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

عمر سعید بتاتے ہیں کہ شہریوں کو اپنے حقوق کا علم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی پولیس والا کسی بھی شہری کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کر سکتا، اُس کی ذاتی زندگی بارے نہیں پوچھ سکتا۔ شہریوں کو اپنے حقوق کے ساتھ قانون کا بھی علم ہوچا چاہیے۔ اس بات کا علم پولیس والوں کو بھی ہونا چاہیے۔

سی پی او فیصل آباد بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے تحریری نوٹس کے ذریعے ضلع بھر کے تمام تھانوں کو ہدایات جاری کر دیں ہیں کہ وہ کسی بھی مرد اور عورت کو روک کر اُن کی نجی زندگی بارے کوئی سوال نہیں کر سکیں گے۔ ایسا صرف وہ قانون کی خلاف ورزی پر کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG