رسائی کے لنکس

وہ فن جو اب بنگلہ دیش میں دم توڑتا جا رہا ہے


بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ تیز رفتار، جدید موٹرائزڈ رکشے جس طرح سائیکل رکشے کی جگہ لے رہیں اس سے رکشہ آرٹ کی روایت بھی ختم ہوجائے گی۔
بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ تیز رفتار، جدید موٹرائزڈ رکشے جس طرح سائیکل رکشے کی جگہ لے رہیں اس سے رکشہ آرٹ کی روایت بھی ختم ہوجائے گی۔

جس طرح پاکستان کا ٹرک آرٹ دنیا میں اس کی پہچان ہے وہیں بنگلہ دیش کے سائیکل رکشہ پر رنگوں کی کاری گری سے بنایا جانے والا آرٹ بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس ’رکشہ آرٹ‘ کے رنگ دھندلے ہوتے جا رہے ہیں۔

اگر آپ بنگلہ دیش جائیں یا وہاں کے مناظر دیکھیں تو آپ کو رنگ برنگے ڈیزائن، فلمی ستاروں کی تصاویر، پرندوں، مختلف عمارتوں اور نقش و نگار والے سائیکل رکشہ نظر آئیں گے۔ سائیکل رکشہ ڈرائیور دہائیوں سے اپنی سواری پر کے کینوس ایسے رنگ بکھیر رہے ہیں۔

لیکن اب بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ تیز رفتار، جدید موٹرائزڈ رکشے جس طرح سائیکل رکشے کی جگہ لے رہیں، اس سے رکشہ آرٹ کی یہ روایت بھی ختم ہوجائے گی۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق چالیس سالہ رکشہ مکینک محمد سبوج کہتے ہیں کہ وہ گاڑیوں کے کیریج کور، سیٹوں اور فٹ ریسٹ کی زینت بننے والی "خوب صورت" پینٹنگز کی کمی پر افسردہ ہیں۔

ان کے بقول آج کل یہ پینٹنگز بہت نایاب ہو گئی ہیں۔ جب وہ نوجوان تھے تو رکشے مکمل رنگ برنگے آرٹ اور ڈیزائن سے بھرے ہوتے تھے لیکن اب یہ رجحان کم ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی کلچرل ایجنسی (یونیسکو) کی جانب سے رواں ماہ اس آرٹ کو غیرمحسوس ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

یونیسکو نے اسے شہر کی ثقافتی روایت کا ایک اہم حصہ اور شہری لوک فن کی ایک متحرک شکل قرار دیا ہے جو اس کے باشندوں کو مشترکہ شناخت کا احساس فراہم کرتا ہے۔

بہتّر سالہ رکشہ ڈرائیور شاہد اللہ لگ بھگ دو کروڑ آبادی والے شہر ڈھاکہ کی گنجان آباد اور تنگ گلیوں میں 50 سال سے رکشہ چلا رہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے لوگ ٹرانسپورٹ کے لیے کاروں اور بسوں یا موٹرائزڈ چینی رکشوں کا استعمال کر رہے ہیں، شاہد اللہ کی سواریاں کم ہو رہی ہیں۔

شاہد اللہ نے یونیسکو کی جانب سے رواں ماہ اس آرٹ کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ ان کے بقول یہ ہمارے لیے اچھی چیز ہے۔ ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

یونیسکو کے جنوبی ایشیا کے سربراہ ٹم کرٹس کہتے ہیں کہ رکشہ پینٹنگ "خطرے میں ہے" اور اسے فہرست میں شامل کرنے سے اس ورثے کو زندہ رکھنے کے جدید اور پائیدار طریقے تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

مکینک محمد سبوج کہتے ہیں کہ ایندھن اور دیگر بنیادی اشیا کی قیمت میں اضافے نے اس دست کاری کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ان کے بقول ڈرائیوروں کو رکشہ مالکان کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ کرایہ ادا کرنا ہونا ہے اور اب رکشوں پر نقش و نگار بنوانے کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔

رکشہ آرٹ کی پینٹنگ ڈیزائن کی نوعیت پر منحصر ہے۔ ان پینٹنگز کی لاگت 45 سے 90 ڈالر کے درمیان ہے۔ یہ رقم ایک نئے سائیکل رکشہ کی لاگت کی ایک تہائی بنتی ہے۔ نیا رکشہ 230 سے 270 ڈالر کے درمیان آجاتا ہے۔

پینٹنگ کی لاگت عموماً رکشہ مالک کو ہی برداشت کرنا پڑتی ہے جو عموماً اپنے رکشوں کو ڈرائیوروں کو کرایے پر دیتے ہیں۔

اس کے برعکس ایک نیا موٹرائزڈ رکشہ مہنگا ہے اور اس کی لاگ 750 سے 900 ڈالر کے درمیان ہے۔ لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان موٹرائزڈ رکشوں کی خریداری پر خرچ کی گئی رقم جلد ہی واپس مل جاتی ہے۔

عبدالمطلب ایک اور رکشہ ڈرائیور ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لوگ اس آرٹ کی تعریف کرتے ہیں لیکن پھر بھی جدید ٹرانسپورٹ بشمول رش والا میٹرو سسٹم استعمال کرتے ہیں۔

ان کے بقول لوگ تیز چلنے والی گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

باسٹھ سالہ رکشہ آرٹسٹ حنیف پپو کہتے ہیں کہ اس کام کو سیکھنے کے لیے آنے والے نوجوانوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کوئی اپنے بچے کو یہ آرٹ سکھانے کے لیے نہیں بھیجتا کیوں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ اس فن کے سکھانے والے خود بھوک سے مر رہے ہیں۔

پپو کے مطابق اس آرٹ کے یونیسکو کی فہرست میں شامل ہونے سے اس کے سیکھنے والوں کی تعداد میں آنے والی کمی رکے گی نہیں۔ ان کے بقول ملک میں رکشہ پینٹنگ مر رہی ہے۔

آرٹسٹ پپو کہتے ہیں کہ یہ پینٹنگز ایک گھومتے ہوئے آرٹ کی نمائش تھیں جو اسے بنانے والے کا پیغام لوگوں تک پہنچاتی تھی۔ انہوں نے پرندوں اور ایک گھر کے ساتھ دیہات کا منظر پیش کرتی ایک پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے دیکھیں یہ امن کا پیغام ہے۔

ان کے بقول یہ منظر مصروف شہر میں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ دور افتادہ علاقوں میں کئی لوگ روزگار کی تلاش میں پیچھے رہ گئے ہیں۔

پپو کا کہنا تھا کہ یہ ایک خوش خاندان کا پیغام ہے، ہم اپنے کام میں ایسے پیغامات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ لڑکپن سے ہی پینٹنگ کر رہے ہیں، ان کے زمانے میں فلمی پوسٹرز کی مانگ زیادہ ہوتی تھی۔

ان کے بقول یہ بنگلہ دیش کا ورثہ ہے۔ یہ ہماری اپنی اور خالص تخلیق ہے۔

حنیف پپو اپنے فن کی انفرادیت پر فخر کرتے ہیں لیکن اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ان مشکلات کی وجہ سے یہ کام چھوڑ سکتے تھے جن کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کے خون میں گھل مل گیا ہے۔ کیا کوئی اس پیشے میں میری طرح 55 سال تک رہ سکتا ہے؟

ان کے بقول اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ صنعت ختم ہو جائے گی۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG