رسائی کے لنکس

سعودی عرب میں عدالتی اصلاحات، حکومت مخالف آوازوں کو آزادی ملنے کا امکان محدود


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سعودی عرب انصاف کے نظام میں اصلاحات کا خواہاں ہے تاہم حکومت مخالف آوازیں قید و بند اور موت کی سزاؤں کا نشانہ بن رہی ہیں جس سے ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ انصاف کے نظام میں یہ تبدیلیاں کس حد تک ممکن ہیں۔

سعودی عرب میں اسلامی شریعت کے سخت قوانین لاگو ہے جن کو ملک کے نظامِ انصاف کی بنیاد بھی قرار دیا جاتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں ملک میں اصلاحات نافذ کی گئی ہیں جن کی وجہ سے مبصرین کا خیال ہے کہ ملک کی عدالتیں پہلے سے بہتر کام کرنا شروع کر دیں گی۔

اس سلسلے میں عورتوں سے متعلق اور جج کی مجرمانہ سزاؤں کے تعین سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے۔

ان تبدیلیوں کا اعلان گزشتہ برس ملک کےغیر اعلانیہ حقیقی حکمران ولی عہد محمد بن سلمان نے کیا جن کی مدد سے سعودی عرب اپنا ہدف، یعنی دنیا کے لیے اپنے دروازے کھولنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

ناقدین کا بھی خیال ہے کہ ان قوانین کی مدد سے سعودی عرب کی عدالتیں زیادہ ذمہ داری سے فیصلے دے سکیں گی۔

تاہم ملک میں مستقبل قریب میں آزادیٴ اظہار سے متعلق قوانین میں تبدیلی نظر نہیں آتی اور ملک کے قوانین ابھی بھی حکومت مخالف آوازوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔

ملک میں جاری اصلاحات کے باوجود رواں سال مارچ میں 81 افراد کو دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی۔

ملک میں دو نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ ایک ثبوت کی تصدیق سے متعلق ہے جو کہ پہلے جج کے دائرہ اختیار میں تھا۔ دوسرا قانون جون میں لاگو ہوگا جس کی وجہ سے طلاق کے بعد خواتین کو خرچے اور بچوں کی کسٹڈی کا حق حاصل ہوجائے گا۔

ان قوانین کا اعلان کرتے ہوئے مارچ میں محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ یہ عورتوں کے حقوق کے لیے ایک بڑا قدم ہے اور ملک کے خاندانی نظام کو محفوظ بنائے گا۔

یورپین سعودی آرگنائزیشن کے نائب صدر عدیل السعید کے مطابق سعودی عرب کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایسے قوانین بنانے کی ضرورت پیش آئی۔

ان کے مطابق سرمایہ کار ایسے ملک میں رقم نہیں لگانا چاہتے جہاں انتہائی سخت نظام انصاف ہو۔

شریعہ لا کے مطابق جن قوانین کی سزا متعین ہے ان کے علاوہ دیگر جرائم کی سزا کا تعین جج کرے گا۔

سعودی نظام میں بادشاہ ملک کی عدلیہ کا سربراہ اور آخری اپیل کورٹ ہے۔

سعودی شہزادے پر اپنے مخالفین اور ناقدین کو قیدو بند کا نشانہ بنانے کا الزامات لگتے رہے ہیں۔

ان میں سابق ولی عہد محمد بن نائف بھی شامل ہیں جو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں سی آئی اے اور مغرب کے حلیف رہ چکے ہیں البتہ ان کی وجہ سے محمد بن سلمان بادشاہت کی دوڑ سے نکل گئے تھے۔

انہیں مارچ 2020 میں گرفتاری کے بعد اب تک عوامی طور پر نہیں دیکھا گیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ محمد بن نائف کے معاملے اور جمال خشوگی کے قتل جیسے کیسز کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہوگا کہ عدالتی اصلاحات نظام پر کس قدر فرق ڈال سکیں گی۔

XS
SM
MD
LG