رسائی کے لنکس

امریکہ میں ایوینجیلیکل نئی نسل اپنے والدین کے مقابلے میں کتنی قدامت پسند ہے؟


کرسچین ایوینجیلیکل گروپ کے ایک مظاہرے میں شریک ایک قدامت پسند خاتون (فائل فوٹو)
کرسچین ایوینجیلیکل گروپ کے ایک مظاہرے میں شریک ایک قدامت پسند خاتون (فائل فوٹو)

امریکہ میں رہنے والے ایوینجیلیکل عیسائیوں کی نئی نسل خود کو اب بھی قدامت پسند ہی تصور کرتی ہے، لیکن ان کی سوچ اورخیالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اپنے والدین اور بزرگوں کے مقابلے میں آزاد خیال ہیں۔

نوجوان نسل، ہم جنس شادیوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور امیگرنٹس جیسے معاملات پر اپنے والدین سے مختلف رائے رکھتی ہے۔

امریکہ میں ایوینجیلیکل عیسائیوں کو ان کے قدامت پسند مذہبی خیالات کیساتھ ساتھ سیاسی طور پر ریپبلکن پارٹی کے حامی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں تاریخ، فلسفے اور مذہبی تعلیم کے شعبے کے لیکچرر ٹیری شومیکر کی نئی نسل کے کئی ایوینجلسٹس سے گفتگو میں یہ راز کھلا کہ نئی نسل تارکین وطن یا امیگرنٹس کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ان نوجوانوں کا خیال ہے کہ انجیل میں کئی ایسے باب ہیں جو مہاجرین کو اپنانے کی تاکید کرتے ہیں۔

پروفیسر شومیکر نے ایک دہائی تک ایوینجیلیکل کمیونٹی پر تحقیق کی ہے جس کے دوران انہوں نے نئی اور پرانی دونوں نسلوں کے درمیان وقت گزارا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے ایک سال تک چار بڑے قدامت پسند گرجا گھروں کی اتوار کی سروسز میں بھی شرکت کی جہاں انہوں نے نا صرف تمام خطبات سنے بلکہ آنے والے لوگوں سے گفتگو بھی کی۔

پروفیسر شومیکر نوعمری میں خود بھی ایوینجیلیکل عیسائی تھے، لیکن گزرتے وقت کیساتھ اب وہ کسی بھی مذہب کیساتھ خود کو جڑا محسوس نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ "جب میں بڑی عمر کے ایوینجلکل عیسائیوں سے بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ میرا تو یہی عقیدہ ہے، مگر میری پوتی اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتی". ایسی باتیں سن کر مجھے یہ جاننے میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ نئی نسل اپنے بزرگوں سے کس قدر مختلف سوچ رکھتی ہے۔

سن 2017ء کے رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق، امریکہ کے سب سے قدامت پسند گروہوں کی نوجوان نسل یعنی 1981ء سے 1996ء کے درمیان پیدا ہونے والے میلینیئلز کی 45 فیصد تعداد ہم جنس شادیوں کے حق میں ہے؛ جب کہ 1981ء سے قبل پیدا ہونے والے 23 فیصد افراد ایسی شادیوں کو غلط نہیں سمجھتے۔

امیگریشن کے معاملے پر نئی نسل سے تعلق رکھنے والے 27 فیصد ایوینجلسٹس کا خیال ہے کہ تارکین وطن کا آنا معاشرے میں بہتری لاتا ہے جبکہ ان کے بزرگوں میں صرف 13 فیصد مہاجرین کی آمد کے حق میں ہیں۔

پچپن فیصد نوجوان نسل مانتی ہے کہ ماحول کو بچانے کے لئے سخت قوانین کی ضرورت ہے، ان کے بزرگوں میں یہ تعداد کم ہو کر 43 فیصد ہوجاتی ہے۔

سفید فام ایوینجلکل عیسائی کل امریکی ووٹرز کا چوتھائی حصہ بنتے ہیں۔ ووٹرز کا یہ بااثر حلقہ ریپبلکن پارٹی سے جڑا نظر آتا ہے۔ 2016ء کے انتخابات میں ان میں سے اسی فیصد نے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ 2020ء میں یہ تعداد چار فیصد کم ہوکر 74 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔

یہاں یہ بات شاید آپ کو دلچسپ معلوم ہو کہ اطلاعات کے مطابق جارجیا میں جو صدر بائیڈن کی کامیابی کے لئے اہم ایک لاکھ ووٹ ایوینجیلیکل عیسائیوں کی جانب سے ڈالے گئے تھے۔

تاہم، میٹرو پولیٹن سٹیٹ یونیورسٹی ڈینور میں پولیٹکل سائنس کے استاد جیریمی کاسل کی رائے پروفیسر شومیکر سے کچھ مختلف ہے۔

جیریمی کاسل نوجوان ایوینجلسٹس پر تحقیقی کتاب بھی تحریر کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں ترقی پسند سوچ رکھنے والے ایوینجلسٹس میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جو گرجا گھر نہیں جاتے یا بہت کم جاتے ہیں۔

کاسل کہتے ہیں کہ "اس ٹرینڈ میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنا میرے لئے باعث حیرت ہوگی۔ مجموعی طور پر قدامت پسند عیسائیوں کی نئی نسل اپنی بزرگ نسل جیسی ہی ہے۔ ہم نے گزشتہ دو عام انتخابات میں ڈیموکریٹس کی طرف تھوڑا جھکاؤ ضرور دیکھا ہے مگر اسے قابل ذکر شمار نہیں کہا جا سکتا۔"

ایوینجیلیکل ثقافت میں ہر ہفتے چرچ جانا اہمیت کا حامل ہے جو ایوینجلکل شناخت اور سوچ کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

پروفیسر کاسل کہتے ہیں، "اسی طرح انجیل کی تعلیم کی کلاسز اور دوسری غیر نصابی مذہبی سرگرمیاں ایوینجلکل مذہبی سوچ کو پروان چڑھانے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں"۔

جہاں نوعمر ایوینجلسٹس ہم جنس شادیوں کے معاملے میں آزاد خیالی دکھا رہے ہیں وہیں اسقاط حمل کے موضوع پر وہ لچک دکھانے کو ذرا بھی تیار نہیں دکھائی دیتے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس معاملے میں نوجوان نسل زیادہ سخت ہے تو غلط نا ہوگا۔

پروفیسر کاسل کہتے ہیں کہ نئی اور پرانی نسل کی رائے میں کئی جگہ اختلاف تو پایا جاسکتا ہے، مگر یہ دونوں اپنی مذہبی کتاب کے تحت اپنی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اور یہی بات دلچسپ بھی ہے کہ نوجوان نسل جو اپنی رائے اسی کتاب کی بنیاد پر قائم کرتی ہے وہ اکثر اپنے بزرگوں سے یہ سوال پوچھتی ہے کہ ایک ہی کتاب سے ہم مختلف معنی کیسے اخذ کر سکتے ہیں؟ ہمیں تو ایک ہی بات کرنی چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG