رسائی کے لنکس

کشمیری طالبہ کے جنسی استحصال پر بھارتی فوجی افسر کے خلاف کارروائی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

میجر گگوئی نے ہوٹل میں دو افراد کے لئے کمرہ آن لائین بُک کراتے وقت اپنی اصلی شناخت چھپائی تھی اور لکھا تھا کہ وہ آسام کا رہنے والا لیتول گگوئی ہے اور کشمیر تجارت کی غرض سے آرہا ہے اور ہوٹل کا بل کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادا کرے گا۔

بھارت کی ایک فوجی عدالت نے ایک ایسے افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیدیا ہے جوحال ہی میں اُس کی طرف سے کی گئی بعض نزاعی کارروائیوں کی وجہ سے ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا محور بن گیا تھا۔

فوجی افسر میجر لیتول گگوئی کو پولیس نے اس سال مئی میں عارضی حراست میں لیا تھا جب اُنہوں نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے ایک ہوٹل کے عملے کے ساتھ ہاتھا پائی کی تھی۔ ہوٹل کے عملے نے فوجی افسر کو ایک مقامی طالبہ کے ساتھ ہوٹل میں ٹھرنے کی اجازت نہیں دی تھی جس پر انہوں نے ہنگامہ کیا تھا۔

میجر گگوئی نے ہوٹل میں دو افراد کے لئے کمرہ آن لائین بُک کراتے وقت اپنی اصلی شناخت چھپائی تھی اور لکھا تھا کہ وہ آسام کا رہنے والا لیتول گگوئی ہے اور کشمیر تجارت کی غرض سے آرہا ہے اور ہوٹل کا بل کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادا کرے گا۔

اگرچہ طالبہ نے بعد میں پولیس کو بتایا تھا کہ وہ فوجی افسر کے ساتھ اپنی مرضی سے گئی تھی بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بِپن راوت نے یقین دلایا تھا کہ اگر میجر گگوئی پر لگایا گیا یہ الزام صحیح ثابت ہوتا ہے کہ وہ طالبہ کو ورغلاکر سرینگر لائے تھے اور اُس کے ساتھ ہوٹل میں ٹھہرنے کا مقصد اُس کا جنسی استحصال کرنا تھا تو اُنہیں سخت اور عبرت ناک سزا دی جائے گی۔

جنرل راوت نے شورش زدہ ریاست کے ایک دورے کے دوران کہا تھا۔ "۔ اگر میجر گگوئی نے غلط کیا ہے تو میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اُسے بہت جلد سزا دی جائے گی اور یہ ایسی سزا ہو گی جس سے سب کو عبرت ملے گی"۔

اس واقعے کے پس منظر میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کو مقامی سطح پر اس بات کے لئے سخت نکتہ چینی کا ہدف بننا پڑا تھا کہ اس نے میجر گگوئی اور اُن کے ساتھ ہوٹل پہنچنے والے ایک مقامی فوجی سمیر احمد ملہ کو ایک انتہائی غریب کنبے سے تعلق رکھنے والی گیارہویں جماعت کی طالبہ کو ہوٹل پہنچانے پر گرفتار کرنے اور ان پر باضابطہ مقدمہ چلانے کی بجائے انہیں متعلقہ فوجی یونٹ کے حوالے کردیا۔

اب فوج کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں جو اس کی اصطلاح میں کورٹ آف انکوائری کہلاتی ہے میجر گگوئی کو رائج ہدایات کے منافی ڈیوٹی کے دوران ایک خاتون کے ساتھ میل جول بڑھانے اور اپنے آپریشن ایریا سے بلا اجازت باہر آنے کا قصور وار پایا گیا ہے۔

فوجی عدالت نے میجر گگوئی کے خلاف تادیبی کارروائی فوری طور پر شروع کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔

میجر گگوئی وہی بھارتی فوجی افسر ہیں جنہوں نے اپریل 2016 میں بھارتی پارلیمان کے ایک ضمنی انتخاب کے دوران پیش آئے سنگباری کے واقعات کے بیچ وادئ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام میں ایک مقامی شال جولاہے فاروق احمد ڈار کو اپنی گاڑی کے ساتھ باندھ کر اُسے کئی گاؤں کی سڑکوں پرگھماتے ہوئے پتھراؤ کرنے والوں سے بچنے کے لئے ڈھال بنایا تھا۔

اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی جس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں اور کئی مقامی اور غیر مقامی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی گروپس نے فوجی افسر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

لیکن فوج کی طرف سے کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں میجر گگوئی کو نہ صرف بری قرار دیا گیا تھا بلکہ بّری فوج کے سربراہ جنرل راوت نے انہیں شاباشی کا کارڑ دیا تھا جس میں عسکریت مخالف مہم میں اُن کی بہترین کارکردگی کا اعتراف کیا گیا تھا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG