مصر کی ایک عدالت نے الجزیرہ کے تین صحافیوں کو تین، تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔
آزادی صحافت اور انسانی حقوق کی علمبرداروں کی طرف سے اس مقدمے پر ایک شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔
جن صحافیوں کو سزا سنائی گئی ہے ان میں کینڈین شہری محمد فہمی، آسٹریلوی شہری پیٹر گریسٹے اور مصری پروڈیوسر باہیر محمد شامل ہیں۔
فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس سزا پر عملدرآمد کیسے ہو گا۔
رواں سال کے اوائل میں گریسٹے کو مصر سے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ سڈنی سے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔
الجزیرہ انگلش کے قائم مقامی ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ سویگ نے بھی فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "یہ منطق اور فہم سے بالا ہے۔"
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ " سارے معاملے کو سیاسی طور پر دیکھا گیا اور صاف و شفاف انداز میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو سکے کہ ہمارے ساتھیوں نے کسی بھی طرح خبروں کو دہشت گرد تنظیموں کے حق میں توڑ مروڑ کر پیش کیا۔"
مصری سکیورٹی فورسز نے 2013ء میں ان صحافیوں کو ایک ہوٹل سے گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ لوگ برطرف کیے گئےصدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین جسے حکام دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، کے ساتھ مل کر "جھوٹی فوٹیج" چلانا چاہتے تاکہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
ان پر مقدمے کا آغاز دسمبر 2013ء میں شروع کیا گیا اور 23 جون 2014ء کو ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔
گریسٹے کو آسٹریلیا واپس بھیجا جا چکا ہے جب کہ فہمی اور باہیر کو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔