مصر میں جمعرات کو الجزیرہ نیوز نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سمیت دیگر افراد کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اکثریت ان صحافیوں پر بنائے گئے مقدمات کو فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کی طرف سے مخالفین کو دبانے اور آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
چار غیر ملکیوں سمیت ان صحافیوں پر مصر کے بارے میں’’ غلط معلومات‘‘ پھیلانے اور اخوان المسلمین کی حمایت یا ان سے منسلک ہونے کے الزامات ہیں۔ اخوان کو حکومت دہشت گرد گروپ تصور کرتی ہے۔
الزامات کا سامنا کرنے والوں میں شامل آسٹریلوی صحافی پیٹر گریسٹ کے والد جورس گریسٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا کہ ان کا بیٹا جلد رہا ہو جائے گا۔
’’ بلاشبہ جہاں تک ہماری بات ہے ہم سمجھتے ہیں وہ بالکل بے قصور ہے اور اسے یا تو یہاں واپس اپنے گھر یا پھر نیروبی میں اپنی معمول کی ملازمت پر چلے جانا چاہیئے۔‘‘
الجزیرہ نیوز قطر میں قائم ہے، قطری حکومت اخوان المسلمین اور برطرف صدر محمد مرسی کی حامی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس ادارے نے مصر سے متعلق جانبدارانہ خبریں دی تھیں۔
تاہم الجزیرہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپنے صحافیوں پر لگائے جانے والے الزامات کو ’’ مضحکہ خیز، بے بنیاد اور جھوٹ‘‘ قرار دیا ہے۔
الجزیرہ کے صحافیوں کے خلاف مقدمے کو بین الاقوامی سطح پر صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاص توجہ حاصل رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو کہا کہ یہ تازہ ترین الزامات سیاسی بنیادوں پر عائد کیے گئے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ مصر میں مخالفین کے لیے جگہ کتنی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔‘‘
آسٹریلین گریسٹ اور مصری نژاد کینیڈین محمد فادل فہمی سمیت تین صحافیوں کو گزشتہ سال دسمبر میں قاہرہ کے ایک ہوٹل سے حراست میں لیا گیا۔
حکام کا کہنا تھا کہ یہ لوگ بغیر مصدقہ اجازت کے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ یہ افراد وڈیو فوٹیج کی اس طرح سے تدوین (ایڈیٹنگ) کر رہے تھے کہ جس سے ظاہر ہو کہ ’’ مصر میں خانہ جنگی ہو رہی ہے‘‘۔ مزید برآں ان کے قبضے سے دہشت گرد تنظیم کی حمایت والا مواد بھی برآمد ہوا۔
الزامات کا سامنا کرنے والوں میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سوئے ٹرٹون اور ڈومینک کین اور نیدرلینڈز کی رینا نیجیس بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی بھی الجزیرہ کے لیے کام نہیں کیا۔
اکثریت ان صحافیوں پر بنائے گئے مقدمات کو فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کی طرف سے مخالفین کو دبانے اور آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
چار غیر ملکیوں سمیت ان صحافیوں پر مصر کے بارے میں’’ غلط معلومات‘‘ پھیلانے اور اخوان المسلمین کی حمایت یا ان سے منسلک ہونے کے الزامات ہیں۔ اخوان کو حکومت دہشت گرد گروپ تصور کرتی ہے۔
الزامات کا سامنا کرنے والوں میں شامل آسٹریلوی صحافی پیٹر گریسٹ کے والد جورس گریسٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا کہ ان کا بیٹا جلد رہا ہو جائے گا۔
’’ بلاشبہ جہاں تک ہماری بات ہے ہم سمجھتے ہیں وہ بالکل بے قصور ہے اور اسے یا تو یہاں واپس اپنے گھر یا پھر نیروبی میں اپنی معمول کی ملازمت پر چلے جانا چاہیئے۔‘‘
الجزیرہ نیوز قطر میں قائم ہے، قطری حکومت اخوان المسلمین اور برطرف صدر محمد مرسی کی حامی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس ادارے نے مصر سے متعلق جانبدارانہ خبریں دی تھیں۔
تاہم الجزیرہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپنے صحافیوں پر لگائے جانے والے الزامات کو ’’ مضحکہ خیز، بے بنیاد اور جھوٹ‘‘ قرار دیا ہے۔
الجزیرہ کے صحافیوں کے خلاف مقدمے کو بین الاقوامی سطح پر صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاص توجہ حاصل رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو کہا کہ یہ تازہ ترین الزامات سیاسی بنیادوں پر عائد کیے گئے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ مصر میں مخالفین کے لیے جگہ کتنی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔‘‘
آسٹریلین گریسٹ اور مصری نژاد کینیڈین محمد فادل فہمی سمیت تین صحافیوں کو گزشتہ سال دسمبر میں قاہرہ کے ایک ہوٹل سے حراست میں لیا گیا۔
حکام کا کہنا تھا کہ یہ لوگ بغیر مصدقہ اجازت کے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ یہ افراد وڈیو فوٹیج کی اس طرح سے تدوین (ایڈیٹنگ) کر رہے تھے کہ جس سے ظاہر ہو کہ ’’ مصر میں خانہ جنگی ہو رہی ہے‘‘۔ مزید برآں ان کے قبضے سے دہشت گرد تنظیم کی حمایت والا مواد بھی برآمد ہوا۔
الزامات کا سامنا کرنے والوں میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سوئے ٹرٹون اور ڈومینک کین اور نیدرلینڈز کی رینا نیجیس بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی بھی الجزیرہ کے لیے کام نہیں کیا۔