صدر براک اوباما نے ملکی معیشت میں مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھ برس قبل ’شدید کساد بازاری‘ کے بھنور میں پھنسی ہوئی معیشت کا رُخ بہتری کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔۔۔ متوسط طبقہ تقویت پا رہا ہے، جب کہ چھوٹے کاروبار خاصی ترقی کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ پیداوار میں فروغ، قومی شرح نمو میں اضافہ، سرمایہ کاری کا فروغ، منوفیکچرنگ میں خاصی تیزی، بے روزگاری میں کمی اور معیشت کی مجموعی بحالی میں مثبت کارکردگی کا حصول شامل ہیں۔
اُنھوں نے یہ بات ریاست شکاگو کے اِلی نوائے شہر میں واقع ’نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی‘ کے طلباٴ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، ایسے میں جب ایک ماہ بعد ملک میں کانگریس کے انتخابات ہونے والے ہیں۔
سیاسی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ مسٹر اوباما کی مقبولیت اپنے پہلے دور صدارت کے مقابلے میں 50 فی صد کم سطح پر ہے، اور بعید نہیں کہ چار نومبر کے انتخابات میں اُن کی ڈیموکریٹ پارٹی سینیٹ میں اپنی اکثریت کھو دے۔
تاہم، صدر نے کہا کہ حکومت جس ایجنڈا پر گامزن ہے، اُس پر عمل درآمد سے معیشت کی افزائش کی شرح مزید بڑھے گی۔
صدر اوباما نے کہا کہ دنیا کی اِس سب سے بڑی معیشت میں بے روزگاری کی شرح 2009ء میں 10 فی صد تھی، جو اس سال کم ہوکر 6.1 فی صد رہ گئی ہے؛ اور یہ کہ 2008ء اور 2009ء کی معیشت کی نچلی سطح بہتری کی طرف قدم بڑھا رہی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس میں روزگار کے ایک کروڑ مواقع کا اضافہ ہوا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ روزگار کی فراہمی میں حاصل ہونے والا یہ اضافہ یورپ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ معیشتوں کی مجموعی کارکردگی کے مقابلے میں ’کہیں زیادہ ہے‘۔
تاہم، صدر اوباما نے زور دے کر کہا کہ اب بھی ایک عام امریکی خاندان کو اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ’سخت محنت کرنی پڑتی ہے‘۔ بقول اُن کے، ملک کی معیشت کے فروغ کے ثمرات مؤثر طور پر ابھی عام امریکی تک نہیں پہنچے۔
اُنھوں نے کانگریس پر زور دیا کہ اُن کی انتظامیہ کی ترجیحات کی منظوری دی جائے، جن کے باعث اُن کی زندگیوں میں بہتری آئے گی۔
صدر نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ اگلے ماہ کے انتخابات میں وہ خود امیدوار نہیں۔ لیکن، اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی پالیسیاں ضرور امتحان سے گزریں گی، جن میں کم سے کم اجرت، زیریں ڈھانچے میں سرمایہ کاری اور اِمی گریشن اصلاحات سے متعلق قانون سازی شامل ہے، جنھیں، بقول اُن کے، ریپبلیکن قانون ساز دبائے ہوئے ہیں۔