اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ پانی خشک حالت میں بھی ملتا ہے، تو بہت ممکن ہے کہ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آجائے ، یا پھرہوسکتا ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ غالباً برف کو غلطی سے خشک پانی یا ڈرائی واٹر کہا جارہاہے۔ مگر اس وقت ہم جس پانی کی بات کررہے ہیں ، وہ واقعی خشک ہوتاہے اور اس کی شکل پسے ہوئے نمک یا چینی سے ملتی جلتی ہے۔
خشک پانی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔سائنس دانوں کو کئی عشروں سے اس کا علم تھا اور کئی برسوں سے بعض شعبوں ، خاص طورپر کاسمیٹکس میں اسے استعمال کیا جارہاہے، بالخصوص جلد کو تروتازہ رکھنے والی مصنوعات میں ۔ اسے سب سے پہلے 1968ء میں پیٹنٹ کرایا گیاتھا۔
لیکن اب سائنس دانوں کو اپنی تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ منفرد قسم کی چیز کو عالمی حدت کے بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پانےکے لیے مؤثر طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ خشک پانی میں فضا میں موجود کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس جذب کرنے کی صلاحیت ہر چیز سے زیادہ ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ ہی وہ گیس ہے جسے ماہرین کرہ ارض کے مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اصل سبب سمجھتے ہیں۔
خشک پانی دیکھنے میں سفید ریت جیسا دکھائی دیتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت وہ ریت جیسی ایک دھات کے ذرات ہوتے ہیں جو پانی کے ننھے ننھے ہرقطر کے گرد چپک جاتے ہیں۔
اس عمل کے باعث پانی کے قطروں کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ آپس میں مل کرمائع کی شکل اختیار کرلیں ، جس کی وجہ سے پانی خشک پاؤڈر کی شکل میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس پاؤڈر نما پانی میں یہ خاصیت موجود ہوتی ہے کہ وہ گیسوں کے ساتھ مل کر کیمیائی مرکبات جنہیں ہائیڈریٹ کہاجاتا ہے، بنا سکے۔
یونیورسٹی آف لیور پول میں خشک پانی پر کافی عرصے سے تحقیق کی جارہی ہے جس کی قیادت بن کارٹر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خشک پانی بہت آسانی سے اور بہت ہی کم وقت میں بنایا جاسکتا ہے۔کارٹر کہتے ہیں کہ خشک پانی بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ سلیکان اور پانی بہت تیز رفتار پر ایک دوسرے سے ملایا ئے اور پھر محض ڈیڑھ منٹ میں خشک پانی تیار ہوجائے گا۔
لیور پول یونیورسٹی کے سائنس دانوں کو اپنی ریسرچ کے دوران یہ معلوم ہوا کہ کاسمیٹکس کے علاوہ کئی اور شعبوں میں بھی اسے استعمال کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں، خاص طورپر میتھین گیس کو اس میں جذب کرنے کے حوالے سے۔بن کارٹر کا کہناہے کہ قدرتی گیس میں موجود میتھین کو، جسے گاڑیاں چلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، خشک پانی کی مدد سے پاؤڈر میں تبدیل کیا سکتا ہے، جس سے خشک ایندھن تیار ہوجائے گا۔ اور پھر پاؤڈر کی شکل کے اس ایندھن کو آپ مائع کی نسبت زیادہ بہتر اور محفوظ طورپر اپنی گاڑیاں چلانے کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ بن کارٹر کو توقع ہے کہ خشک ایندھن کی مارکیٹ میں فراہمی اب کچھ زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔
کارٹر کا کہنا ہے کہ چونکہ خشک پانی کاربن ڈائی اکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہےاس لیے اسے فضا میں موجود ان گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار کم کرنے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جو گلوبل وارمنگ کا سبب بن رہی ہیں۔
کارٹر کہتے ہیں کہ خشک پانی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کی گیس جذب کرنے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات سے یہ ظاہر ہوچکاہے کہ ایک خصوصی مرکب کے استعمال سے تیار کیے جانے والے خشک پانی کو بار بار استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دواؤں ، خوراک اور روزمرہ استعمال کی کئی دوسری چیزوں کی تیاری میں خشک پانی کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اور اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مائع حالت میں پائے جانے والے خطرناک اور نقصان مرکبات کی نقل وحمل محفوظ طور کی جی جاسکتی ہے۔
کارٹر اور اس کی ٹیم نے خشک پانی کے بارے میں اپنے تجربات کے نتائج بوسٹن میں منعقد ہونے والی امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں پیش کیے۔