کرد پیش مرگہ کےکمانڈر، سلیمانیہ میں اپنے صدر دفتر کے ایک کوچ پر براجمان ہیں۔ ایک قریبی ٹیبل پر خشک میوہ جات سے بھرا کٹورہ پڑا ہوا ہے۔ اُن کی ڈیسک کے پاس فرش پر دو لمبی رائفلیں پڑی ہوئی ہیں۔
اُنھوں نے اپنے مخصوص برطانوی لہجے میں، داعش کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ’’جتنی زیادہ مدت تک داعش وہاں ٹھہرتی ہے، وہ نوجوان جنھیں کوئی روزگار میسر نہیں وہ اُن کے ساتھ مل سکتے ہیں، جنھیں شام اور دیگر ملکوں کی حکومتوں نے دبا کر رکھا ہوا ہے‘‘۔
اُنھوں نےمتنبہ کیا کہ ’’وہ کہیں کھسک نہیں جائیں گے۔ جب تک موصل اور رقہ فتح نہیں ہوتے، داعش اتنی جلدی ختم ہونے کا نام نہیں لے گی۔ یہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔ لیکن یہ ختم نہیں ہو رہی‘‘۔
یہ وہ تجزیہ ہے جو پولاڈ جنگی نے چند ہی ہفتے قبل دیا تھا۔ وہ سلیمانیہ کے علاقوں، کرکوک میں موصل کے جنوب میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اُن کا تجزیہ امریکی حکام کے دیگر حالیہ تجزیوں سے زیادہ پریشان کُن نہیں، جس میں صدر براک اوباما بھی شامل ہیں۔
تاہم، متعدد فوجی اور انٹیلی جنس کے عہدے داروں کے مطابق، یہ حقیقت کے زیادہ قریب بات ہوگی، جن کا کہنا ہے کہ امریکی قیادت والے اتحاد کی کامیابیاں حقیقی ہیں، یہ داعش کے قبضہ جات کے قریب کا علاقہ ہے۔
ایک امریکی عہدے دار جنھوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’وہ وقت کے بدلے جگہ دینے پر رضامند لگتے ہیں‘‘۔
جس بات کی حکام کو پریشانی ہے وہ یہ کہ ایک طرف تو داعش کے زیر قبضہ علاقہ سکٹر رہا ہے، یعنی عراق میں اُن کے زیر تسلط خطے کا 40 فی صد تک علاقہ اُن کے پاس نہیں رہا جب کہ شام میں کم از کم 10 فی صد علاقہ چھن چکا ہے۔۔ شکست کی صورت حال میں یہ ٹولہ بہت کچھ سیکھ رہا ہے۔ کبھی وقت تھا کہ وہ اپنے وسائل کو پھیلاتا تھا، اور لڑائی کرنے میں پہل کیا کرتر تھا، اب ایسا لگتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر لڑنا چاہتا ہے۔
عہدے دار کے بقول، ’’جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں وہ یہ کہ داعش رقہ اور موصل کے اپنے محفوظ ٹھکانوں میں اپنی ترجیحات رکھتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بہت ہی شدید لڑائی جاری ہے‘‘۔
اس بات کی بھی تشویش ہے کہ داعش جتنی زیادہ پریشان ہوگی، یہ زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔
امریکی انٹیلی جنس کے ایک اہل کار نے کہا ہے کہ ’’داعش نے اپنے چوٹی کے سرغنے گنواں دیے ہیں، جب کہ اُس کے ہزاروں لڑاکے اور علاقے ہاتھوں سے جاچکے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ شدت پسند گروپ اس کی تلافی کرے گا‘‘۔ اور وہ ایسا کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔