رسائی کے لنکس

بھارت میں خواتین کی نشستیں بڑھانے کا بل؛ اپوزیشن کی حمایت کے باوجود تنقید


بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے متعلق پیش کیے جانے والے بل پر ملا جلا ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ بیشتر جماعتیں اس کی حمایت تو کر رہی ہیں لیکن وہ بل کی مبینہ خامیوں اور اس کے نفاذ میں تاخیر پر تنقید بھی کر رہی ہیں۔

خواتین ریزرویشن بل لوک سبھا میں بدھ کو بحث کے بعد ہونے والی ووٹنگ کے بعد منظور کر لیا گیا۔ اس کے حق میں 454 ووٹ پڑے جب کہ مخالفت میں دو ووٹ ڈالے گئے۔ اسے منظور کرنے کے لیے ایوان کے دو تہائی ارکان کی حمایت ضروری تھی۔ اب اسے ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھیجا جائے گا۔ وہاں بھی اس پر بحث اور پھر ووٹنگ ہوگی۔ اگر وہاں بھی اسے منظور کر لیا گیا، جس کا قوی امکان ہے تو یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔

سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی نے بدھ کو پارلیمان میں بل پر ہونے والی بحث کا آغاز کرتے ہوئے بل کی حمایت کی۔ لیکن یہ بھی کہا کہ اس کے نفاذ میں کسی بھی طرح کی تاخیر بھارتی خواتین کے ساتھ شدید ناانصافی ہو گی۔

واضح رہے کہ مودی حکومت نے منگل کو لوک سبھا میں مذکورہ بل پیش کیا۔ اس بل کا نام ’ناری شکتی وندن ادھینیم‘ ہے۔ بل کے منظور کر لیے جانے کا قوی امکان ہے۔

روٹیشن پالیسی

بل کے مطابق قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے 33 فی صد نشستیں 15 برس تک مخصوص رہیں گی۔ اس کے بعد بھی پارلیمان اسے جاری رکھ سکتی ہے۔ ہر حد بندی کے بعد مخصوص نشستیں روٹیٹ ہوں گی یعنی وہ تبدیل کر دی جائیں گی۔

موجودہ قانون کے مطابق اگلی حدبندی 2026 میں کی جانے والی مردم شماری کے بعد ہو گی۔ یعنی اس قانون کا نفاذ کم از کم 2027 تک جا کر ہو گا۔

بعض رپورٹس کے مطابق اس قانون کا نفاذ 2029 کے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر ہو پائے گا۔ پچھلی مردم شماری 2021 میں ہونے والی تھی جسے کرونا کی وبا کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔

وزیر قانون ارجن رام میگھوال کے مطابق اس وقت لوک سبھا میں 82 خاتون ارکان ہیں۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد یہ تعداد 181 ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ اس وقت لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 543 ہے۔ اس قانون کا نفاذ ریاستی اسمبلیوں پر بھی ہو گا تاہم راجیہ سبھا پر نہیں ہو گا۔

بل پیش کیے جانے کے موقع پر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور تمام ارکان سے اپیل کی کہ وہ آگے آئیں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی غرض سے ان کے لیے ایوان کا دروازہ کھول دیں۔

'انقلابی فیصلہ'

صدر دروپدی مورمو نے نئی دہلی کے وگیان بھون میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اسے ایک انقلابی قدم قرار دیا اور کہا کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں خواتین کے لیے 33 فی صد نشستیں پہلے سے مخصوص ہیں اور اب پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں بھی اس کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ صنفی انصاف کے حوالے سے یہ ایک انقلابی فیصلہ ہے۔

سونیا گاندھی نے حکومت سے تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اس بل کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ نہ صرف ضروری ہے بلکہ ممکن بھی ہے۔

اُنہوں نے بل میں شیڈولڈ کاسٹ یا درج فہرست ذاتوں اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے بھی نشستیں مخصوص کیے جانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ فوری طور پر ذات برادری کی بنیاد پر مردم شماری ہونی چاہیے۔ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے بھی او بی سی کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے کافی عرصے سے ذات برادری کی بنیاد پر مردم شماری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بقول اس کے اس طرح ہونے والی مردم شماری کے بعد آبادی کے تناسب میں لوگوں کو ان کا جائز حق دیا جا سکے گا۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن نشی کانت دوبے نے سونیا گاندھی کے بعد ایوان میں بولتے ہوئے ان کے مطالبے کو بل کی طرف سے توجہ ہٹانے اور اس کا کریڈٹ خود لینے سے تعبیر کیا۔

قبل ازیں کانگریس پارٹی کے کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے بل کو حکمراں جماعت کا ایک ’جملہ‘ قرار دیا اور اسے خواتین کے لیے دھوکہ بتایا۔

'یہ صرف ہیڈ لائنز کے لیے ہے'

سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم کے مطابق اگر اسے فوری طور پر نافذ نہیں کیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف پریس کی سرخیوں کے لیے ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ماؤ نواز (سی پی آئی ایم) اور عام آدمی پارٹی نے حکومت پر تنقید کی جب کہ راشٹریہ جنتا دل، سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے او بی سی اور اقلیتوں کے لیے ریزرویشن کے انتظام کا بھی مطالبہ کیا۔

سی پی ایم کی سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے اگر چہ بل کی حمایت اور اس کا خیرمقدم کیا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلی مردم شماری اور حدبندی تک خواتین اپنے حقوق سے محروم رہیں گی۔

مسلمان خواتین کے لیے بھی نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کی اور سوال کیا کہ اس میں مسلمانوں کے لیے نشستیں کیوں نہیں مخصوص کی گئیں۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اویسی نے کہا کہ لوک سبھا کے لیے اب تک 17 مرتبہ انتخابات ہوئے اور 8000 ارکان کا انتخاب ہوا۔ ان میں صرف 520 مسلمان ہی منتخب ہوئے۔ ان میں بھی مسلم خواتین بہت کم ہیں۔

مبصرین بھی بل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم شیبہ اسلم فہمی نے بل کا خیرمقدم تو کیا لیکن یہ بھی کہا کہ انھیں اس کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کی نیتوں پر شبہ ہے۔

وہ سوال کرتی ہیں کہ یہ حکومت پسماندہ مسلمانوں کی بات کرتی ہے لیکن پسماندہ مسلمانوں اور پسماندہ مسلم خواتین کو نمائندگی نہیں دینا چاہتی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے اس کے نفاذ میں ہونے والی تاخیر پر بھی اعتراض کیا اور اسے فوری طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔

وہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے قائم اداروں میں بھی خواتین کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ان اداروں میں دلت، پسماندہ اور محروم طبقات کی خواتین کو نمائندگی ملنی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو خواتین کے خلاف جرائم کم نہیں ہوں گے۔

سینئر تجزیہ کار رویندر کمار اس بل کو خواتین کے ساتھ دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس حکومت کو 2024 تک کے لیے ہی فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ 2029 یا اس کے بعد کے لیے فیصلہ آنے والی حکومت کرے گی۔ انھوں نے اس بل کو حکومت کی جانب سے ہوا میں محل بنانا قرار دیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس لیے یہ بل پیش کیا تاکہ 2024 کے انتخابات میں خواتین کے ووٹ حاصل کر سکے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو گی۔ شیبہ اسلم فہمی بھی یہ نہیں سمجھتیں کہ اس سے اگلے انتخابات میں بی جے پی کو کوئی فائدہ ہو گا۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی بل کا خیرمقدم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تاخیر سے اٹھایا جانے والا یہ ایک اچھا قدم ہے۔ ان کے خیال میں بی جے پی اس بل سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔

واضح رہے کہ سب سے پہلے سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے 1996 میں خواتین ریزرویشن بل پیش کیا تھا جسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا اور جو بعد میں از خود ختم ہو گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے 1998 میں اسے پیش کیا تھا۔ انھوں نے 1999 میں بھی کوشش کی تھی مگر دونوں بار مخالفت کی وجہ سے ناکام رہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 2008 میں اسے پیش کیا مگر اس کی بعض دفعات پر مخالفت کی وجہ سے اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کیا گیا اور پھر لیپس ہو گیا۔

اسے 2010 میں راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا اور منظور کر لیا گیا لیکن چونکہ لوک سبھا میں پیش نہیں کیا جا سکا اور لوک سبھا کی مدت ختم ہو گئی لہٰذا بل بھی از خود ختم ہو گیا۔بی جے پی 2014 میں برسراقتدار آئی ہے اور اب اس نے اسے پیش کیا ہے۔ اس کے منظور کیے جانے کا قوی امکان ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG